khola Khalid's blog

A space for soul-deep reflections, meaningful reads, and gentle reminders - rooted in faith, thought, and healing.

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


اکثر خیال آتا ہے کہ اگر جو آج میں نہ رہوں تو کیا ہوگا؟ کتنے لوگوں کو فرق پڑے گا اور کس حد؟ اور کیا میری تیاری مکمل ہے؟ میں کون ہوں، کیا ہوں؟ کس مقصد سے چلی تھی، کہاں پہنچی ہوں؟۔۔۔ کبھی کبھار کچھ بھی نہیں پتہ چل پاتا۔ زندگی کی اس دوڑ میں حاصل و لا حاصل کا تناسب کتنا ہے؟ حساب کرنے بیٹھوں تو خسارے ہی خسارے نظر آئیں گے ۔

زندگی کیا ہے؟ زندگی بڑی عجیب، غیر یقینی سی شے ہے۔ اگلے پل کا کچھ علم نہیں ہوتا کب کیا چال چل جائے! کہاں ہارتے ہارتے جیت جائے، کہاں جیتی ہوئی بازی ہار جائے۔ اسی میں بعض موڑ ایسے آتے ہیں جہاں کچھ آگے ہوتا ہے نہ پیچھے، نہ کچھ دایا ہوتا ہے نہ بایاں۔ بس ایک لمبی سڑک ہوتی ہے جسکے ایک سِرے پر اندھیرا ہوتا ہے اور دوسرے کو آپ بہت پیچھے چھوڑ چکے ہوتے ہو کہ واپسی کی گنجائش نہیں رہتی۔ سڑک بھی ایسی عجیب کہ آپکے قدم چلنے سے انکاری بھی ہو جائیں، سڑک آپ کو لے کر آگے کو چلتی ہی جائے گی۔ اور تمام تر خوف اور امیدوں کے ہمراہ آپ کو اسی اندھیرے کی سمت سفر جاری رکھنا ہی پڑے گا۔۔۔ شاید اس میں موجود روشنیاں کھوجنے کیلیے!

پھر کبھی تو یہ سفر لا حاصل سی آبلہ پائی میں بدل جاتا ہے اور کبھی یہ جستجو دھنک کے انوکھے رنگوں تک لے جاتی ہے۔ کون جانے!

یہ زندگی کا سفر انسان کو ڈراتا ہے، تڑپاتا ہے، آزماتا ہے۔ اور انسان کے پاس چلتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں اتنی ایجادات سے انقلاب پرپا کرنے والا انسان ایک نہ ایک جگہ آکر مکمل طور پر اپنے خالق کے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ ہر تدبیر لڑا کر آخر میں عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے کہ چھٹکارہ ہو تو کیسے ہو؟ تب صرف صبر سے اس سفر کے کٹنے کا مرحلہ آتا ہے۔

اور صبر سے مشکل بھی بھلا کوئی کام ہے؟ انسان کی یہ مشکل رب کونین کے علم میں بھی ہوتی ہے تبھی افلاک کے پردوں سے تسلی کا پروانہ نازل ہوتا ہے کہ میرے بندوں کو بتا دوں ہر چیز کا ثواب مقرر ہے، صرف صبر وہ واحد شے ہے کہ جسکے حاملین کو بے حساب اجر دیا جائے گا:

(إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّـٰبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ)

ستر، اسی گنا نہیں، بلکہ سرے سے کوئی حد نہیں۔ بے حد، بے حساب اجر۔ اور جب وہ خالق ارض و سماء بے حساب کہے تو اس اجر کی عظمت میں بھلا کیا شک رہ جاتا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ صبر واقعی کوئی معمولی شے نہیں۔ اور اسی لیے آسان بھی نہیں!

کبھی کبھار دل کرتا ہے: بھاڑ میں گیا مستقبل کا سارا سسپینس، ختم ہو یہ زندگی! دل بے ساختہ گنگناتا ہے:

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟

پر وہی بات کہ زندگی کی سب سے بڑی محافظ خود موت ہے! یہ وہ شکاری ہے جو آخر لمحے تک اپنے شکار کی حفاظت کرتا ہے اور جب وقت مقرر آجاتا ہے تو خاکی کو خاک میں ملتے دیر نہیں لگتی۔

﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ [یونس: 49]

تو یہ بھی طے ہوا کہ موت ظالم نہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ حکم کی غلام ہے بلکہ اپنے وقت سے پہلے وہ زندگی کی سب سے بڑی قدردان اور محافظ بھی ہے۔

تو جینا تو پڑتا ہے۔ ہر حال میں، ہر صورت! تجسس کا خاتمہ بھی اپنے وقت پر ہوتا ہے اور جیسا وقت گزارنا نصیب میں ہوتا ہے انسان گزار ہی لیتا ہے۔۔۔ رو کر یا ہنس کر وقت گزر ہی جاتا ہے۔

ہاں، پر کبھی دل کرتا ہے بے وجہ آنسوں بہانے کا، درد کو لفظوں میں ڈھالنے کا۔ اتنی شدت سے، اس قدر سچائی کے ساتھ کہ قرطاس کا سینہ چیر دے، اشکوں کی نمی سیاہی مٹا لے جائے۔ کہیں کچھ تو بوجھ کم ہو۔

زندگی کا سفر ویسے بھی پھولوں کی سیج تو ہوتا نہیں۔ لا یعنی بوجھ کو خود پر لادے اسے مزید مشکل نہیں بنانا چاہیے۔ کہیں اپنی ذات سے آسانی بانٹنے کا موقع ملے تو بے دھڑک بانٹ دینی چاہیے۔ دنیا والوں کو اس وقت آسانیوں کی ضرورت ہے۔ یہ نہ کرسکیں تو اتنا ضرور کرلیں کہ مشکلات بانٹے سے خود کو روک لیں۔

قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے نا، تو کسی نہ کسی حد تک ضرور زندگیاں آسان بنا سکیں گے ہم۔ کیا خیال ہے؟

بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا؟
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
لے دے کے اپنے پاس فقط ایک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم؟
مانا کہ اس زمین کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

— خولہ خالد




No comments:

Post a Comment

Bottom Ad [Post Page]