السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
آج کی پوسٹ خصوصی طور پر ان لوگوں کے نام ہے جو شادی یا اولاد نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ موخر الذکر لوگ خاص طور پر میرے مخاطب ہیں۔
دیکھیں میں جانتی ہوں کہ سوسائٹی کا پریشر آپ پر بہت زیادہ ہے۔ آپ دن میں دس طرح کے لوگوں کی باتیں سن رہے ہیں۔ آپ کو تکلیف ہوتی ہے جب آپ لوگوں کی اندر تک اترتی نگاہوں کو اپنے اوپر محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ بے بس ہیں کہ نہ شادی کر لینا آپ کے اختیار میں ہے نا ہی اولاد کا ملنا۔
سب سے پہلے تو آپ ایک بات جان لیں۔ سارے ناولز، ساری کہانیاں ایک طرف رکھ دیں، اور یہ جان لیں کہ شادی زندگی کا مقصد "نہیں" ہے۔ اولاد زندگی کا مقصد "نہیں" ہے۔ یہ دونوں زندگی کے محض "پڑاؤ" ہیں جہاں دوران سفر آپ کو ٹھہرنا پڑتا ہے۔ آپ کی منزل۔۔۔۔ اصل منزل کچھ اور ہے۔
اللہ نے آپ کو اسلئے دنیا میں نہیں بھیجا کہ آپ شادی کر لیں۔ یا آپ کے بچے ہو جائیں۔
You are a lot more than that.
آپ ایک کامل انسان ہیں اور آپ کو مکمل ہونے کیلئے کسی دوسرے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، منزل کی جانب اکیلے چلنے سے بہتر ہوتا ہے کہ کسی "مخلص" کا ہاتھ تھام لیا جائے۔ پر اگر آپ کو تھامنے والا کوئی ہاتھ نہیں مل رہا (فی الوقت اللہ کی کسی مصلحت کے تحت) تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی منزل کے طرف بڑھتے قدم ہی رک جائیں۔ اللہ کی آپ سے راضی ہونے کی شرط یہ بالکل نہیں ہے کہ آپ شادی کریں یا آپ کے بچے ہوں۔ ان دونوں کے ہونے یا نہ ہونے سے اللہ کی عبادت میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ نا ہی ان دونوں کے ہونے یا نہ ہونے پر آپ کی خوشی کا انحصار ہے۔۔۔۔
جی ہاں! نہ تو شادی خوشی کی ضمانت ہے نہ ہی اولاد ہونا۔ پھر آپ محض لوگوں کے ڈر سے یا اپنی خواہش کے پیچھے اپنی موجودہ زندگی، حالیہ لمحے کی نعمتوں کو کیوں فراموش کیے ہوئے ہیں؟
آپ کی خوشی آپ کے اندر ہے۔ وہ کسی چیز سے نہیں، بس آپ کی سوچ سے مشروط ہے۔ اور جب آپ زبردستی اسے دوسری چیزوں سے نتھنی کرتے ہیں اور ضد لگا لیتے ہیں کہ بس تب ہی خوش ہوں گے جب یہ ملے گا، تب اللہ آپ کی ضد پوری کر دیتا ہے۔ وہ آپ کو وہ چیز دے دیتا ہے۔ لیکن پھر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ خوشی اس چیز کے ملنے سے پہلے نہیں تھی تو خوشی تو اب بھی نہیں ہے۔ یہ تو صرف ایک بہانہ تھا جسے اپنا کر آپ نے اپنی اُس وقت موجود نعمتوں کی خوب ناشکری کی۔
کیونکہ خوشیاں مثبت سوچ سے پیدا ہوتی ہیں۔ آپ کے اندر سے جنم لیتی ہیں۔ ورنہ اندر اداسی ہو تو باہر کا منظر کیسا ہی حسین ہو، نگاہ کو پھیکا ہی لگتا ہے۔ اسلئے نکل آئیے اس غلط فہمی سے کہ آپ کی خوشی کی ضمانت فلاں چیز کا ہونا یا نہ ہونا ہے۔
دوسری بات۔ لوگوں کی باتیں دل دکھاتی ہیں۔ سسرال والے طعنے دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات آپ سمجھ لیں۔ یہ جو لوگ شادی اور اولاد جیسے خالص قدرت کے فیصلوں پر انسان کی مجبوری اور بے بسی کو نشانہ بناتے ہیں وہ چھوٹی سوچ والے ہوتے ہیں۔ اور چھوٹی سوچ والے انسان کو راضی کرنے، اسکی نظر میں قابل قبول بننے کیلئے آپ کو خود کو shrink کرنا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں آپ کو خود بھی چھوٹا ہونا پڑے گا تبھی آپ انکی سوچ کے دائرے میں سما سکیں گے۔ انکے لئے قابل قبول ہو سکیں گے۔
تو کیا آپ واقعی اتنے کم ہمت ہیں کہ اپنے ارد گرد موجود کچھ چھوٹی سوچ والوں کی باتوں سے ہار کر اپنی صلاحیتوں کو آگ لگا دیں۔ ظاہر ہے جب آپ شرنک ہوں گے تو اسکے لئے بہت کچھ اپنے وجود سے الگ کرنا پڑے گا آپ کو۔ اپنے ہنر۔ اپنی اچھی سوچ۔ اپنی صلاحیتیں۔ اپنی قابلیت۔ اپنی صحت۔ اور بہت کچھ۔۔۔۔ تو کیا واقعی وہ لوگ اس قابل ہیں؟ ۔۔۔ کیا کوئی بھی انسان اس قابل ہوتا ہے کہ آپ اسکے پیچھے اپنی ان صلاحیتوں کو آگ لگا دیں جو اللہ نے خاص "آپ کو" دی ہیں؟ وہ صلاحیتیں جو "آپ کی منزل" تک پہنچنے کیلئے اللہ نے آپ میں زاد راہ کے طور پر رکھی تھیں! اگر نہیں، تو آج سے اپنے کانوں میں روئی ڈال لیں اور کسی چھوٹی سوچ والے کو اپنے دل دماغ پر حاوی نہ ہونے دیں۔
تیسری بات۔ آپ کو کیا معلوم آپ جو مانگ رہے ہیں آپ اسکے لئے تیار ہیں بھی یا نہیں؟ آپ کے ارد گرد آپ کی عمر کے بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں دیکھ کر آپ سوچتے ہوں گے کہ اسکی شادی ہو گئی اور میں ابھی تک بیٹھا/بیٹھی ہوں۔ یا اسکی تو میرے ساتھ شادی ہوئی تھی، آج اسکے اتنے بچے ہیں اور میری گود خالی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم لانگ ٹرم پلاننگ پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم سب بس سامنے کا منظر دیکھتے ہیں اور اسی کو کامیابی کی انتہا سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ ابتدا بھی نہیں ہوتی۔ درحقیقت کسی بھی مرحلے پر کامیاب ہونے کیلئے وہ دیکھنا شرط ہے جو آنکھ سے اوجھل ہوتا ہے۔
آپ شادی کی خواہش تو کر رہے ہیں پر یہ سوچا ہے کہ اسکے بعد اسے نبھانا کیسے ہے؟ کیا آپ میں اتنے temperaments ہیں کہ ایک بالکل نیا لائف اسٹائل ایڈاپٹ کر سکیں اور اس سفر میں اپنے spouse کو سمجھ سکیں؟ اسے اسکی جائز اسپیس دے سکیں۔ اسے اپنا غلام نہ سمجھیں۔ اسکی غلطیوں پر اسے جج کرنے، چیخنے چلانے، بد گمان ہونے کے بجائے تحمل اور تدبر سے معاملات چلائیں۔ دو میچور انسانوں کی طرح آس پاس والوں کو اپنے رشتے پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔ اپنے معاملات بنا چیخے چلائے خوش اسلوبی سے ٹیکل کر سکیں۔ کیا آپ میں اتنا تحمل ہے کہ بعض مرتبہ اپنی خواہش کو دوسرے کی خوشی پر قربان کر سکیں۔ غلطی ہو جانے پر درگزر کر سکیں۔۔۔۔ (ایک لمبی لسٹ ہے ان خصوصیات کی جو شادی سے پہلے ہر دو انسانوں میں پیدا ہونی چاہئیں۔ یا کم از کم انہیں ان صفات کی ضرورت کا ادراک ہونا چاہئے۔)
شادی کوئی کپ کیکس اور rainbows نہیں ہے۔ شادی بھاری ذمہ داریوں کا نام ہے جو مرد و عورت پر یکساں عائد ہوتی ہیں۔
اور اولاد۔۔۔ وہ تو اس بھی کہیں زیادہ demanding ہے۔ آپ کو جسمانی، ذہنی، جذباتی و نفسیاتی طور پر اتنا مضبوط ہونا ہے کہ آپ ایک معصوم روح کی ایسی تربیت کر سکیں کہ وہ اس بے رحم دنیا کا نوالہ بننے کے بجائے انسانیت کیلئے فخر بن جائے۔ زیادہ نہیں تو اپنے ارد گرد والوں کیلئے وہ ایک اچھا انسان ہو۔ (ایک اچھا انسان نا کہ ایک ڈگریوں اور کتابوں سے لدا ایک گدھا۔ جو انسانیت کے معنی جانتا ہو اور رشتوں کی خوبصورتی اور زندگی کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھانے کی صلاحیت رکھتا ہو)
ہم سبھی جانتے ہیں کہ آج کی دنیا کیسی ہے اور یہ کس طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں اپنے بچوں کو موجودہ اور آنے والے فتنوں سے بچانا سب درمند دلوں کیلئے ایک سنجیدہ و پیچیدہ سوال ہے۔ آج کل کے ٹین ایجرز کا اکثر گلہ ہوتا ہے کہ والدین نے ہمیں اپنی خوشی کیلئے پیدا کر دیا جبکہ وہ خود پیرنٹنگ کے جدید تقاضوں سے بالکل نابلد تھے۔ اور یوں مشکل ہماری زندگی ہوئی، بھگتنا ہمیں پڑ رہا ہے۔۔۔۔ جھٹلائیے گا مت، یہ جملہ میں خود کئی لوگوں کے منہ سے سن چکی ہوں۔ اور یقینا آپ کو اچھا نہیں لگے گا اگر آپ کا بچہ آپ سے یہ جملہ کہے گا۔ لیکن دوسری طرف آپ اس suffering کا بھی انکار نہیں کر سکتے جس سے ایسے بچے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اسکا انکار کرنا بذات خود ایک چھوٹی سوچ ہے اور اولاد کیلئے بالخصوص اور قوم کیلئے بالعموم بہت خطرناک بھی۔ (وصال میں اسکی تھوڑی بہت وضاحت تو یمان کے کردار کے ذریعے آپ سبھی کو ہو گئی ہو گی نا!)
تو عزیز قارئین! اگر آپ کی شادی نہیں ہو رہی، یا اگر آپ کی اولاد نہیں ہو رہی تو آج آپ خود سے پوری ایمانداری سے ایک سوال پوچھیں۔
کیا میں شادی کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اس موجودہ لمحے میں ایک اچھا spouse بن سکتا/سکتی ہوں؟
کیا میں پیرنٹنگ کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اس موجودہ لمحے میں ایک اچھا parent بن سکتا/سکتی ہوں؟
مجھے یقین ہے آپ کو اپنے رویے میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ملے گا جو آپ کو بتائے گا کہ نہیں، آپ کو تو پہلے فلاں فلاں چیز کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بعد کا پریشر ابھی والے پریشر سے کئی گنا بد تر ہوگا۔
تو آپ آج سے ایک ایک کر کے اپنی ان عادات، رویوں اور روٹینز میں تبدیلیاں لانا شروع کریں۔ خود کو بدلیں۔ کسی کیلئے نہیں بس اپنے لئے۔ شادی نہیں ہو رہی تب بھی آپ کو کامیاب ہونے کیلئے ان خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اولاد نہیں ہو رہی تب بھی آپ کو ان رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کے ارد گرد کئی بچے ہیں جو کہیں نا کہیں آپ کے رویے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ آپ کی اولاد ہوں۔ لیکن وہ انسان کے بچے ہیں۔ اور اتنے ہی قیمتی ہیں جتنا آپ کی اپنی اولاد ہو سکتی ہے۔
میرا یقین کریں جس دن آپ تیار ہوئے اللہ آپ کی مانگ پکے ہوئے پھل کی طرح آپ کی جھولی میں ڈال دے گا ان شاء اللہ۔
بعض لوگوں کو اللہ کچھ چیزیں جلدی دے دیتا ہے کیونکہ وہ اسکے لئے تیار ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ تیار نہیں ہوتے لیکن اللہ نے انہیں آزمانا ہوتا ہے۔ اسی لئے بعض شادی شدہ لوگوں کیلئے وہ بندھن ایک آزمائش ہوتا ہے۔ صاحب اولاد لوگوں کی بعض اولادیں انکے درد سر ہوتی ہیں، والعیاذ باللہ۔ اسلئے دوسروں کی ظاہری نعمتوں کو دیکھ کر ان سے جلنا اور خود کیلئے برا محسوس کرنا چھوڑ دیں۔ آپ انکی آزمائشیں نہیں جانتے۔
اور بعض لوگوں کی دعائیں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ تیار نہیں ہوتے۔ اور اللہ انہیں اس مخصوص چیز سے آزمانا نہیں چاہتا۔ اللہ انکی خواہش کو انکے لئے زحمت نہیں بنانا چاہتا بلکہ وہ انہیں رحمت و انعام کی صورت نوازنا چاہتا ہے۔ اسلئے اللہ انہیں موقع دیتا ہے کہ وہ خود کو تیار کر لیں۔ آپ اس پر بنا جذباتیت کے ٹھنڈے دل سے سوچیں گے تو آپ کو ضرور اپنے "میں ہی کیوں؟" کے جواب مل جائیں گے۔
اسکے ساتھ ساتھ دعا سے بے بہرہ نہیں ہونا۔ عبادات میں کوتاہی نہیں کرنی۔ اللہ سے مانگنا، بار بار اسکے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا نہیں چھوڑنا۔ اور اگر آپ کسی چیز کیلئے واقعی desperate ہیں تو اسے تہجد میں مانگیں۔ نیند وہ ہے جو سولی پر بھی آ جاتی ہے۔ تو جو آپ مانگ رہے ہیں اگر وہ آپ کیلئے اتنا ہی ضروری ہے تو ثبوت کے طور پر اپنی نیند قربان کریں۔ تہجد کی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ تو دوا اور دعا ساتھ ساتھ کریں۔ اللہ پاک ہم سب سے راضی ہو جائے اور ہمیں بھی راضی ہونے اور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
-خولہ خالد
Marriage goals
No comments:
Post a Comment