khola Khalid's blog

A space for soul-deep reflections, meaningful reads, and gentle reminders - rooted in faith, thought, and healing.

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

 معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں۔


تخیل کے رتھ پر سوار ہو کر وقت کی گردش کو الٹا گھماتے ہوئے صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہوئے اگر تم دیکھو تو تمہیں سمندر کنارے ایک ہجوم نظر آئے گا۔ بدحال، خوفزہ، لرزہ اندام بنی اسرائیل، جو غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنے نبی کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ 


ذرا پیچھے دیکھو تو اس ہجوم کے قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے گھڑسواروں کا ایک لشکر نظر آئے گا۔ بے رحم، سفاک آنکھیں۔ کرخت چہرے۔ اسلحہ بردار فرعونی سپاہی اور خود فرعون بھی! 


آگے بحر قلزم ہے۔ پیچھے خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کا لشکر ہے۔ بیچ میں خدا کے چند بندے ہیں جن کے دونوں طرف موت ہے۔ 


لشکر قریب پہنچ جاتا ہے تو بنی اسرائیل گھبرا کر نبی کو پکارتے ہیں کہ اے موسیٰ! ہم تو گھیر لیے گئے ہیں۔ (انا لمُدرَکون

آگے سے بنا ایک لمحے کی تاخیر کیے دبنگ، ایمان سے لبریز جواب آتا ہے: کلا! ہرگز نہیں۔ 

ان معی رب سیھدین: میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ میری رہنمائی کرے گا!۔۔۔۔ 

ایسے یقین و ایمان پر رحمت الٰہی جوش میں آتی ہے اور فورا وحی اتاری جاتی ہے کہ عصا کو سمندر پر دے مارو! 


یہاں جان لے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بندہ سوچے کوئی فرشتوں کی فوج آئے گی لشکر سے نمٹنے کو، یا کوئی کشتی کنارے پر آ لگے گی جس میں سوار ہو کر بچ جائیں گے، مگر یہاں تو ایک لاٹھی کو سمندر پر مارنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ وہ آخری چیز بھی نہ ہو جو کسی کے ذہن میں آئے۔ لیکن جب رہنمائی دینے والے پر یقین ہو تو جو رہنمائی ملے اس پر بھی ویسا ہی اندھا یقین ہونا چاہیے۔ 

سو بغیر کوئی دوسرا سوال کیے بحر قلزم کے سینے پر لاٹھی دے ماری۔ اور پھر وہ ہوا جسے دنیا "معجزہ" کہتی ہے۔۔۔۔۔ ایسی چیز جس کو کرنے پر خدا کے سوا کسی کو قدرت نہ ہو! سب عاجز ہوں اس کی نظیر پیدا کرنے سے! 


سمندر دو حصوں میں بٹ گیا۔ بیچ میں راستہ نکل آیا۔ یہاں تک سب پڑھتے اور سر دھنتے ہیں لیکن ذرا سوچیے۔۔۔۔ 

 معجزہ تو ہو چکا تھا لیکن کیا آپ نے کبھی ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر دیکھا ہے؟ کبھی اس کی موجوں کی قوت محسوس کی ہے جب وہ ساحل پر سر پٹختے ہوئے شکستگی کی انتہا پر ہوتی ہیں تب بھی واپس سمندر میں ضم ہوتے ہوئے اس قدر شدید طاقت رکھتی ہیں کہ اچھے بھلے انسان کے قدم اکھیڑ کر اسے ساتھ بہا لے جائیں۔ اور جب بات ہو بیچ سمندر کی تب تو پہاڑ جیسے جہاز کو ڈبونے پر آئیں تو چند منٹوں کا کھیل ہوتا ہے۔ 


آپ تصور کر کے بتائیے۔۔۔۔۔ آپ کے سامنے ایسا ہی بپھرا ہوا سمندر ہے جو دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ آپ وہاں اترتے ہیں تو وہ سڑک نشیبی ہے کیونکہ آگے سمندر گہرا ہے۔ اور آپ اس سڑک پر جتنا آگے بڑھتے جاتے ہیں آپ کے دائیں بائیں موجود پانی کی دیوار جو بنا کسی سہارے کے کھڑی ہے، اتنی ہی اونچی ہوتی جاتی ہے۔ آپ تصور کریں ذرا اور پھر ایمان سے بتائیں، ایسے راستے پر چلنے کی ہمت کر لیں گے آپ؟ کیا پانی کی وہ خوفناک لہراتی، بل کھاتی، بے سہارا، انتہائی اونچی دیواریں آپ کو لرزا کر نہیں رکھ دیں گی؟ 


پتہ ہے، ڈوب کر مرنا مرنے کی ایک بہت اذیت ناک قسم ہے۔ بنی اسرائیل سے بہتر یہ کوئی نہیں جانتا تھا ورنہ وہ بہت پہلے اس قید سے نکل بھاگے ہوتے۔ وہ نہیں بھاگ سکے کیونکہ ان کی بستی کے عین پیچھے دریائے نیل بہتا تھا۔ وہیں جہاں ام موسی علیہ السلام نے انہیں دریا کے سپرد کیا تھا۔ اور ان کے سامنے فرعون کی چھاؤنیاں ہوتی تھیں۔ اور اب پھر ان کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ وہی پانی جس کے خوف سے وہ کبھی فرار نہ ہو سکے۔ معجزوں کا راستہ اکثر ہمارے سب سے بڑے خوف کے بیچ سے گزر کر جاتا ہے۔ اور اب وہ پانی دریا کے بجائے طاقت اور مقدار میں کئی گنا زیادہ، سمندر کی صورت سامنے ہے۔ اور آپشن محدود ہیں۔ 


ہمیں لگتا ہے معجزہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ من مرضی کام من مرضی طریقے پر ہو جانے کو ہم معجزہ کہتے ہیں۔ کیا تھا اگر اللہ کوئی زیادہ محفوظ راستہ دے دیتا۔ ممکن تھا نا؟ سمندر کے اوپر کوئی ٹھوس راستہ بن جاتا۔ یا پھر کشتی میں بیٹھ کر سمندر پار کرنا بھی کم از کم ایسے خوفناک سمندری راستے سے گزرنے سے آسان ہوتا جہاں دائیں پائیں کئی فٹ اونچی لہریں ہر دم آپس میں ضم ہونے کو تیار ہوں۔ مگر معجزوں کے تقاضے بھی کچھ اور ہوتے ہیں!  


معجزہ سامنے ہے لیکن اس معجزے سے فائدہ اٹھانے کیلیے بھی زبردست قسم کا ایمان چاہیے۔ ایسا ایمان جس کے آگے ہر خوف دم توڑ جائے اور اندھا یقین ہو کہ اگر میرے رب کا بتایا ہوا، چنا ہوا راستہ یہی ہے تو بس اسی میں میری نجات ہے! 

انگریزی مقولہ ہے کہ

Fear and faith have something in common: they both require you to believe in something you cannot see.


خوف کہتا ہے مر جائیں گے۔ ایمان کہتا ہے بچ جائیں گے۔ دونوں ہی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ دونوں ہی ان دیکھی، uncertain شے پر یقین کا نام ہیں۔ تو کیوں نہ ایمان کی راہ چن لی جائے؟ یقین کی راہ اختیار کر لی جائے؟ اگر مگر، اور کیوں کیا کے بجائے رب کے راستے پر ڈٹ لیا جائے؟ اور وہ یقین بنی اسرائیل کو کرنا پڑا تب ہی ان کی نجات ممکن ہوئی۔ معجزہ صرف یہ نہیں تھا کہ سمندر کا سینہ چیر دیا گیا۔ معجزہ یہ بھی تھا کہ انہیں سمندر کو پار کر لینے کی ہمت عطا ہو گئی۔ 


اور وہ جو خوف تھا کہ پانی کی یہ دیواریں ڈھے نہ جائیں وہ بھی آنکھوں کے سامنے سچ ثابت ہوا۔ لیکن ڈوبے وہ نہیں بلکہ فرعون ڈوب گیا۔ معجزہ یہ بھی تھا! 


روایات کے مطابق دس محرم وہی دن ہے جس کے کسی لمحے میں صدیوں قبل موسی علیہ السلام کے ایمان کی بنا پر سمندر کا سینہ شق ہو گیا تھا۔ خدا آج بھی وہی ہے جو صدیوں قبل موسی علیہ السلام کا تھا۔ اگر ہم اس کی رہنمائی اور راستے نکال دینے کی قدرت پر ویسا ایمان بھی لے آئیں جیسے موسی علیہ السلام نے جھٹ سے کہا تھا کہ : "کلا! ان معی رب سیھدین" تو معجزے ہمارے لیے بھی ہو سکتے ہیں۔ 

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بعض اوقات معجزہ عین نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے اور ہم ایمان کے بجائے خوف کو ترجیح دے کر اس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چوائس ہماری اپنی ہے۔ رب اور اس کے خزانے اور عطا آج بھی جوں کی توں ہے! 

خولہ خالد

Sea split


Mojza 

Moosa alaihis salam Ka qissa 

Miracle 

Mojza Kia hota hai?

Mojza kab hota hai? 


No comments:

Post a Comment

Bottom Ad [Post Page]