بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#اسماء_الحسنی_سیریز
#از_خولہ_خالد
قسط 5
اسم: السلام
آج ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے جس اسم مبارک کو ڈسکس کرنے جا رہے ہیں وہ بہت خوبصورت ہے۔ میٹھا، ٹھنڈا اور پر سکون نام مبارک یعنی السلام!
یہ لفظ کسی بھی مسلمان کیلئے نیا نہیں ہوگا۔ اسی کے روٹ ورڈز سے ہمارے دین کا نام "اِسْلَام" ہے، اور ہم "مسلمان" ہیں، ہماری گفتگو کا آغاز "السَّلَامُ عَلَیْکُمْ" سے ہوتا ہے، اور ہمارا رب "السَّلَامُ" ہے۔
السلام کے روٹ ورڈز ہیں (( س ل م )) یعنی سِلم۔ اور سلم کے کئی معانی ہیں۔
امن، سلامتی، نجات، سکون، فرحت (قلبی) و راحت (بدنی)، بے عیبی وغیرہ۔ بظاہر یہ ملتے جلتے الفاظ ہیں مگر انکی گہرائیوں میں کئی مختلف جہاں ہیں، سوچنے سمجھنے والوں کیلئے۔
ہمارا رب یعنی السلام ان سب صفات کا بدرجہ اتم مالک ہے۔ سبحان اللہ۔ تو السلام سب سے پہلے تو خود ہر طرح کی آفات، خامیوں اور عیبوں سے بالکل مبرا اور پاک ہے، مامون ہے۔ السلام ہے! یہ معنی اس میں اور القدوس میں برابر پائے جاتے ہیں۔
پھر ہمارا رب امن دینے والا ہے۔ اسکے پاس ہر دشمن سے امان ہے۔ اور دشمن اگر توبہ کرنا چاہے تو اسکے پاس دشمنوں کیلئے "بھی" امان ہے۔ ہے نا خوبصورت بات؟!
ہم نے آج تک اپنے ساتھ دشمنی نبھائی۔ گناہ پر گناہ، نافرمانی در نافرمانی کی۔ یہاں تک کہ ہمیں یقین ہونے لگا کہ اب اسکے پاس ہماری کوئی جگہ نہیں بچی ہوگی۔ اس غم میں ایک آنسو بہا آنکھ سے اور ہمیں مقبول کر گیا۔ کیونکہ وہ السلام ہے۔ وہ ٹھکانہ، وہ اکلوتی ذات جہاں ہر پناہ چاہنے والے کو امان ملتی ہے۔
رب تعالیٰ سکون دینے والا بھی ہے۔ بلکہ وہ خود سراپا سکون ہے۔ السلام ہے۔ جو لوگ خانہ کعبہ جاتے ہیں، اور جو اسے محض تصاویر میں دیکھتے ہیں۔۔۔ ان سب کے ذہنوں میں پہلا تصور سکون کا ابھرتا ہے نا؟!
Tranquillity and peace!
جیسے چاند کے گرد روشنی کا ہالہ ہوتا ہے نا جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے، ویسے رب رحمان کے گرد بھی ایک روشن ہالہ ہو جیسے۔ اس ہالے کے اندر داخل ہوتے ہیں انسان کے رگ و پے میں سکون نشے کی مانند اترنے لگے۔ اس ذات کا سکون ایسا طاقتور ہے کہ جو اسکے دائرے میں آئے اس کو بھی اندر باہر سے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ محض تصور کرنے میں ایسا لذت آگہیں ہے تو جو اسکے قریب ہوتے ہیں اور اس ہالے میں خود کو محسوس کرتے ہیں انکی کیفیت کیسی پر کیف ہوگی نا؟!
پھر وہ سکون محض وقتی سکون نہیں ہے۔ یا وہ محض سکون کا بہلاوا نہیں ہے۔ بلکہ وہ السلام ہے۔ نجات دینے والا بھی ہے۔ جتنی بھی بڑی مشکل ہو، کیسی ہی پریشانی ہو "السلام" کے پاس نجات ہے!
آپ کو ڈپریشن ہے؟ انزائٹی، پینک اٹیکس؟ ماضی کا غم، مستقبل کی بے چینی؟ آپ خود کو کھویا ہوا محسوس کرتے ہیں؟ آپ identity crisis میں الجھ رہے ہیں؟ کیوں نہیں جاتے السلام کے پاس؟ وہ جو سراپا سکون ہے۔ جسکا ہالہ پر سکون ہے۔ جسکے قرب میں سکینت ہے۔ اور وہ جیسا خود ہر عیب سے پاک ہے وہ اپنی قریب آنے والوں کو بھی عیوب و نقائص سے پاک کر دیتا ہے۔ انکی روحوں کو آلائشوں سے پاک کر دیتا ہے اور انکے دلوں اور ذہنوں کو نہ صرف پر سکون کر دیتا ہے بلکہ مناسب حل بھی وہی سجھاتا ہے۔
آپ کی زندگی میں کتنے مسئلے آئے ہوں گے جب آپ کو لگا ہوگا کہ ان سے نکلنے کا تو کوئی طریقہ ہے ہی نہیں میرے پاس! لیکن آج جب آپ مڑ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو آپ کو نظر آتا ہے کہ آپ ان سب مسئلوں سے نکل آئے ہیں۔ کوئی تو تھا جس نے نا ممکن میں راہیں بنائیں۔ یہ جو آئیڈیاز آتے ہیں ذہن میں یہ کون لاتا ہے؟ نجات دینے والا اللہ نا؟! یہ جو انوکھے انداز سے لوگوں کو ہماری زندگیوں میں لے آتا ہے، ہم حیران ہوتے ہیں کہ فلاں شخص مجھے کیسے مل گیا؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی الجھن میں مبتلا ہوتے ہیں اور اچانک کوئی بالکل رینڈم انسان عین اس موقع پر ہمارے پاس آتا ہے۔ اپنی کوئی بالکل رینڈم بات کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اور ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ یہ میری مشکل حل کر گیا ہے۔ باتوں باتوں میں مجھے حل بتا گیا ہے۔ کس نے بھیجا ہوتا ہے اس شخص کو آپ کے پاس؟
وہ پوسٹس جو عین اس وقت سامنے آ جاتی ہیں جب آپ ان میں لکھی باتوں کو لے کر الجھ ہو رہے ہوتے ہیں اور یکدم آپ کے ذہن کو آئینے کی طرح صاف کر دیتی ہیں۔۔۔ کس کی پلاننگ ہوتی ہے وہ؟
وہ لوگ جن سے ہمارا یارانہ ہوتا ہے۔ اچانک بے تکی باتوں پر زندگی سے نکل جاتے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہوا کیا۔ ہم محدود نظر کے لوگ تعلق ٹوٹنے پر خود ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم اس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ تعلق اس موڑ پر ہمارے لئے تباہ کن ہو سکتا تھا اسلئے خدا نے دور کر دیا۔ کیونکہ دونوں فریقوں کو کچھ سکھانا مقصود تھا۔ جو جتنا جلدی سیکھ لے السلام اسے اتنا ہی جلدی heal کر دے گا۔ پھر کچھ وقت گزرتا ہے اور جو کھویا ہوتا ہے وہ بہتر انداز میں واپس مل جاتا ہے۔ یہ سب السلام ہی کی تو پلاننگ ہے جو آپ کیلئے آپ کے مانگے بنا ہی سکینت و اطمینان اختیار کرتا ہے۔ کتنے ہی ٹاکسک رشتوں سے بچا لیتا ہے۔ اور کتنے ہی رشتوں کو ٹاکسک ہونے سے پہلے بچا لیتا ہے۔ اور کتنی ہی مرتبہ رشتے توڑ کر خود ہمارے لئے ہمارے وجود کو، اصل شناخت اور درست راہ کو بچا لیتا ہے!
وہ السلام ہے جو ذہنی الجھنوں کو بھی دور کر دیتا ہے اور قلبی تشویش بھی زائل کر دیتا ہے۔ جو روح کو بھی روشن کر دیتا ہے اور جسم کو بھی شفایاب کر دیتا ہے۔ جو خود پرفیکٹ ہے۔ اسکے ہر کام میں پرفیکشن ہے۔ اسکے پاس ملتے سکون میں کتنی اور کیسی پرفیکشن ہوگی نا؟! ہم پرفیکشن ازم کے مارے لوگ سکون سے عاری ہوتے جاتے ہیں۔ ایسے میں السلام ہمیں پکارتا ہے اور کہتا ہے میرے قریب آ جاؤ میں تمہیں پرفیکٹ سکون کے مزے چکھاتا ہوں۔ سکون تو پھر سکون ہوتا ہے۔ اگر وہ پرفیکشن کے ساتھ ہو تو کیسا کیف آگہیں ہوگا، تصور کریں!
وہ خود سراپا سلام ہے۔ سلامتی و امن ہے۔ اسلئے اس نے جنت بنائی۔ پھر اسے "دار السلام" کہا۔
{ لَهُمۡ دَارُ ٱلسَّلَـٰمِ عِندَ رَبِّهِمۡۖ وَهُوَ وَلِیُّهُم بِمَا كَانُوا۟ یَعۡمَلُونَ }
[Surah Al-Anʿām: 127]
ترجمہ: ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولٰی ہے انکے نیک اعمال کے سبب۔
تفاسیر کے مطابق جنت کو دار السلام اللہ پاک کے اسی نام "السلام" کی طرف نسبت کر کے کہا جاتا ہے۔ جیسے ہم "بیت اللہ" کہتے ہیں۔ ویسے ہی جنت کو "دار السلام" فرمایا کہ اسکا مالک اللہ ہے۔
دوسرے قول کے مطابق جنت کو دار السلام اسلئے کہتے ہیں کیونکہ وہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف، پریشانی یا عیب جنتیوں کو نہیں پہنچے گا۔
اور تیسرے قول کے مطابق دار السلام اسلئے کہاں کیونکہ جنت میں داخلے کے وقت جنتیوں کو سلام کیا جائے گا۔ اور جنت میں جنتی بھی اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ اللہ پاک ہمیں ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے عافیت سے آمین۔
(اور اس سے ایک ضمنی بات یہ بھی نکل آئی کہ دنیا میں جنت بنانا چاہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ ہائے ہیلو، خدا حافظ وغیرہ جیسے الفاظ کے بجائے السلام علیکم کی کثرت کیجیے۔ حضور ﷺ کا حکم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتدا سمجھ کر کیجیے۔ دگنا تگنا اجر ملے گا ان شاء اللہ۔ اور ہاں! سلام کو اسکی درست ادائیگی اور کتابت کے ساتھ سیکھیے۔ یہ اسلام علیکم۔ اسلام و علیکم۔ السلام و علیکم جیسی غلطیوں سے بچیں!)
سو اب دیکھیں وہ السلام ہے۔ اس نے جنت بنا کر اسے "دار السلام" کہا۔ پھر جنت میں داخلے کیلئے اپنے محبوب ﷺ کی امت کیلئے جو چابی بنائی اسے "اسلام" کا نام دے دیا۔ اور اس چابی کے اپنانے والوں کو "مسلمان" فرما دیا۔ کیسے اعزاز کی بات ہے ہم مسلمانوں کیلئے اگر ہم سمجھیں! اپنے نام سے ہمیں حصہ عطا فرمایا۔ سبحان اللہ!
فرمایا :
{ ٱلۡیَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِینَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡكُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِینࣰاۚ }
[Surah Al-Māʾidah: 3]
ترجمہ: آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو بطور دین پسند کیا ہے۔
اللہ تو یہ کہہ رہا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں اسلام بطور دین پسند نہیں ہے؟
نہیں، زبانی کلامی تو ہم خوب جمع خرچ کر لیتے ہیں۔ اس میں ہمارا کیا جاتا ہے بھلا! پر عملی اسلام۔۔۔ وہ کہاں ہے؟؟
اللہ کہتا ہے اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ پر آج ہم سبھی محض اپنی مرضی کے اسلام پر عمل کرتے ہیں باقی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تو بے سکونی کیوں نہ ہوگی بھلا؟ زندگی اور دل وحشت سے کیوں نہ پُر ہوں گے بھلا؟
سلامتی تو ہم نے خود چھوڑ دی نا اپنی چوائس سے۔ پھر شکوہ کس بات کا؟ اگر ہم ڈپریشن، انزائٹی، پینک اٹیکس، ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف میں گرفتار ہیں تو اسلئے ہیں کیونکہ ہم نے السلام سے اپنا ناطہ توڑا ہوا ہے۔ اور جب سلامتی کے رب سے ہی دور ہو گئے ہیں تو کہاں سے آئے گا زندگی میں سکون؟! جب نجات دینے والی ذات کو ہم نے چھوڑ دیا ہے تو کون کرے گا ہماری زندگی کی مشکلات کو حل؟!
آج ہم مشکلات حل کرنے کیلئے وظیفوں کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ شادی نہیں ہو رہی وظیفہ بتا دیں۔ نوکری نہیں مل رہی وظیفہ بتا دیں۔ اولاد نہیں وظیفہ بتا دیں۔ بچے نافرمان ہیں وظیفہ بتا دیں۔۔۔۔۔
اور وہ نمازیں جنہیں ہم نے فضول کی سستی کاہلی میں قضا کر دیا ہوتا ہے یا جنہیں پڑھنے کا ہمیں خیال تک نہیں آتا وہ ہمیں یاد نہیں آتیں۔ قطع تعلقی ہم کرتے ہیں۔ غیبت ہمارا مشغلہ ہے۔ بد اخلاقی ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ انسانیت سے ہم عاری ہیں۔ نہ ہماری نماز اچھی نہ روزہ نہ زکات۔ ہر عمل کا ہم اسٹیٹس جب تک لگا کر دنیا کو نہ بتائیں ہمیں لگتا ہے وہ مکمل نہیں ہوتا۔ فضول رسم و رواج کے رسیا بن کر شادی بیاہ جیسے فرائض کو ہم نے بے حد مشکل بنا دیا ہے۔
ہم نے سلامتی کو خود ہی زندگی سے نکالا ہوا ہے۔ ورنہ ہمارا رب اور دین تو سراپا سلام تھا، ہے اور رہے گا۔
اور اگر ہم السلام کا قرب پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی سے منفیات کو نکالنا پڑے گا۔ ہمیں اپنی ذات کے شر کو دوسرے سے روکنا ہوگا۔ ہر لمحے یہ محاسبہ کرنا ہوگا کہ میری ذات کے کسی عمل سے کسی دوسرے کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ ہمیں خود سلامتی والا بننے کی پریکٹس کرنی ہوگی۔ اگر ہم یہ کر لیں تو ہم خود بخود السلام کے قریب ہونے لگیں گے کیونکہ حدیث مبارک میں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (اور یہاں محفوظ رہنے کیلئے لفظ استعمال کیا "سلم"!) لہذا اپنے اعمال کی درستگی کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ اپنی ذات میں سلامتی پریکٹس کریں۔ آپ کے دل کو سلامتی السلام عطا فرما دے گا۔ ان شاء اللہ!
اور اگر آپ بے سکونی کا شکار ہیں تو سوچیے۔ کہیں آپ خود دوسروں کیلئے ایذا کا سبب تو نہیں بنتے؟ چھبتے ہوئے مذاق کرنا، بات بے بات طنز کرنا، سچ کے نام پر دل دکھانے والے باتیں کہنا، مسلمان بہن بھائیوں کے عیوب تلاش کر ان پر پھبتیاں کسنا، اپنے پاس مدد کیلئے آئے لوگوں کو ٹھکرا دینا، حقیر سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ یا کہیں آپ بھی تو السلام سے دور نہیں ہیں؟ کیونکہ وہ جو خود السلام ہے۔ اسکے قریب رہنے والوں کو اسکی پناہ میں آ کر کوئی گزند پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرا نہیں پورا سوچیے!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
-خولہ خالد
کاپی پیسٹ کرنے اور کسی بھی قسم کی تبدیلیوں کی سختی سے ممانعت ہے!
No comments:
Post a Comment