بعض اوقات ہم علم میں جتنا بڑھتے جاتے ہیں اتنے ہی محروم ہوتے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ فرض اور نفل میں کیا فرق ہوتا ہے تب ہمارے لئے ہر نماز "نماز" ہوتی تھی جسکی ادائیگی بصد شوق کی جاتی؛ چاہے عصر کی سنتیں ہوں یا عشاء کی۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ نفل نمازیں بلا عذر بھی "کبھی کبھار" بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے تب ہم نفلوں میں بھی لمبے لمبے قیام کیا کرتے تھے۔ پھر ہم فرائض و واجبات میں بھی سستی کرتے ہوئے غیر عذر کو عذر سمجھنے لگے۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ جمعے کا غسل "محض" سنت ہے تب ہم اسکے لئے خصوصی اہتمام کرتے تھے۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ روز کا قرآن پڑھنا واجب نہیں ہے تب ہمارے لئے یومیہ تلاوت لازمی ہوتی تھی جسکے بغیر ہمیں سکون نہیں آتا تھا۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ جماعت سے نماز "صرف" واجب ہے "فرض" نہیں تب مساجد ویران نہیں ہوتی تھیں۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ ہر دعا دنیا میں قبول نہیں ہوتی تب ہم خدا کی ذات پر اندھے یقین کے ساتھ بصد شوق دعائیں مانگا کرتے تھے۔
جب ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم نے ہر انسان کی مدد کا ٹھیکا نہیں لے رکھا تب انسانیت ہر رشتے سے بڑھ کر ہوتی تھی۔
کبھی کبھار محسوس ہوتا ہے کہ ہم یہ سب جانے بنا ہی ٹھیک تھے۔ کم از کم عمل کے تو پکے تھے۔ تب ہم علمی مسلمان نہیں عملی مسلمان تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ہم جتنا علم میں بڑھتے گئے اتنا ہی عمل میں گھٹتے رہے۔ ہم جتنا جانتے رہے اتنا ہی محروم ہوتے گئے۔ اور پھر اسی لئے تو علم والوں کا درجہ بے علم لوگوں سے زیادہ ہے کیونکہ انکی مشقت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اسی لئے تو علم والے کی پکڑ لاعلم لوگوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ اس نے علم کا مقصد اور قدر نہیں سمجھی۔
اسی لئے آپ صلی الله علیه و سلم نے امت کو جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں اس علم سے بھی پناہ مانگی ہے جو فائدہ نہ دے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: «اللہم إِنِّي أَعوذ بك من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعا لا يسمع»
”اے اللہ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو مفید اور نفع بخش نہ ہو، اور اس دل سے جس میں (اللہ کا) ڈر نہ ہو، اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو“۔ (رواہ الترمذی و النسائی و غیرہ بالفاظ متقاربۃ)
~خولہ خالد
Oct 21 2021
No comments:
Post a Comment