khola Khalid novels

Hi, Bookworms & Novel lovers! We are here to provide you with a healthy & balanced entertaining content under the mindful purpose of proliferating positivity & making this world a better place to live.

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

#اسمائے_حسنی_سیریز 

قسط 1 

اسم الجلالہ: اللہ

جیسا کہ سبھی کو معلوم ہے کہ عربی ایک بہت وسیع زبان ہے۔ جس میں ذرا سے زبر و زیر کے فرق سے معنی بدل سکتا ہے۔ کسی ایک حرف کے اضافے اور اسکے نقص سے مفہوم بدل سکتا ہے۔

 اور یہ بھی ایک یقینی بات ہے کہ جس چیز کے مفہوم ہم پر کس قدر واضح ہوتے جاتے ہیں اسی قدر اسکی اہمیت (معانی کے لحاظ سے) ہمارے دل میں بڑھتی یا گھٹتی جاتی ہے۔ 

دنیا میں کوئی ایسا مسلمان نہیں ہوگا جو لفظ "اللہ" سے نا واقف ہو۔ دنیا سے باہر کی بھی تمام مخلوقات چاہے آسمان و زمین میں جہاں بھی ہوں وہ بھی اس لفظ سے واقف ہیں۔ 

لیکن کیا ہم اس لفظ کے معنی سمجھتے ہیں؟ 

اگرچہ یہ ایک بہت دقیق علمی بحث ہے لیکن پیچیدگیوں میں پڑے بغیر میں صرف سادہ اور آسان ترین مفاہیم کی بات کروں گی جو کسی بھی عربی معجم (ڈکشنری) میں آپ کو روٹ ورڈز "الہ" کے تحت بآسانی دستیاب ہوں گے۔ 

سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ لفظ "اللہ" کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ 

پہلی یہ کہ یہ لفظ اسم جامد ہے۔ یعنی یہ کسی لفظ سے ماخوذ نہیں ہے نہ اس سے کوئی اور لفظ بن سکتا ہے۔ بلکہ یہ اپنی ذات میں یکتا لفظ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے خدا تعالیٰ کی ذات، اپنے تمام تر کمالات الٰہیہ میں یکتا اور منفرد ہے۔ اس جیسا نہ کوئی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ نہ وہ خود کسی اور سے مشتق ہے نہ اس سے کوئی مشتق ہو سکتا ہے۔ نہ اسکا کوئی باپ ہے نہ اسکا کوئی بیٹا۔ سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون ۔۔۔۔ وہ ان باتوں سے بہت بلند تر ہے جو مشرک لوگ اسکی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 

جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ لفظ مشتق ہے۔ اسکے روٹ ورڈز (( أ ل ہ )) ہیں۔ اور یہ لفظ الہ پر لام تعریف یعنی "ال" لگانے سے وجود میں آیا۔ ایسے: 

ال + الہ = اللہ 

اور اسی حساب سے اس میں کئی معانی پائے جاتے ہیں۔ 

دوسری سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ اللہ پاک کا "ذاتی" نام ہے۔ اور باقی جتنے بھی نام ہیں وہ اسکے صفاتی نام ہیں۔ 

آپ نے سنا ہوگا کہ ناموں کا انسان کی شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔ دوسرے آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب مارکیٹ میں کوئی نئی ایجاد لانچ ہوتی ہے تو اس سے پہلے بڑی سوچ بچار کے بعد ہزاروں آپشنز میں سے اسکے لئے ایک نام اختیار کیا جاتا ہے۔ وہ نام ایک ایسا نام ہوتا ہے کہ جو سننے والے کو پہلی مرتبہ میں ہی متاثر کرے۔ اور ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی تمام خوبیوں کو ایک لفظ میں جمع کر سکے۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ اس ایجاد کی اہم ترین خوبیوں کو سب سے پہلے ہائی لائٹ کرے کہ سامع کا ذہن سب سے پہلے ان بنیادی صفات کی طرف جائے اور مرعوب ہو جائے۔ وہ اسے خریدنے اور اپنانے پر مجبور ہو جائے۔ اور پھر جب وہ اسے خریدنے جائے اور اسکی ڈسکرپشن پڑھے تو اسکی مزید خوبیاں اس پر آشکار ہوتی جائیں اور وہ ہر طرح سے اس چیز کا گرویدہ ہو جائے۔ اسے اپنی بنیادی ضرورت سمجھنے لگے۔ یہ بزنس اسٹریٹجیز کا حصہ ہوتا ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں یہ بات کسی کو کسی سے تشبیہ دینے کیلئے نہیں بلکہ محض "ذاتی نام" کی اہمیت کی وضاحت کیلئے ذکر کی گئی ہے۔ چاہے وہ کسی کا بھی ذاتی نام ہو) 

اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ذاتی نام وہ ہے جسے سن کر بے اختیار ہر فرد مرعوب ہو جائے۔ وہ ایک ایسا لفظ ہو جو رب تعالیٰ کی تمام صفات کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ اور وہ ایک ایسا لفظ ہو جو خدا تعالیٰ کی بنیادی صفات کو سب سے پہلے ہائی لائٹ کرے۔ اور بھی اس ذاتی نام میں لا تعداد خزانے چھپے ہوں گے جن تک میری محدود عقل پہنچنے سے قاصر ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جنکی حقیقت اللہ کے سوا شاید کوئی نہ جانتا ہے۔ 

پھر باقی نام اسکے صفاتی نام ہیں۔ 

جیسے کوئی انسان بیک وقت کئی چیزوں میں ماہر ہو تو اردو میں اسے "ہر فن مولا" کا خطاب دیا جاتا ہے۔ 

کوئی چھوٹا بچہ ہو تو عوامی زبان میں اکثر لوگ اسے "چھوٹے" کا خطاب دیتے ہیں۔ یعنی اسکے اندر جو بھی اچھی یا بری صفت موجود ہے، اسی صفت کو اسکا نام بنا کر مشہور کر دیا جاتا ہے۔


اب آتے ہیں الہ کے معانی کی طرف۔۔۔۔ 


الہ کا سب سے پہلا مطلب ہے: 

1- وہ ذات جسکی طرف امن و نجات حاصل کرنے کیلئے رجوع کیا جائے۔ 

اب آپ دیکھیں۔ یہ اللہ پاک کا ذاتی نام ہے۔ اسکی highlighted صفت ہے۔ وہ ذات کہ مصیبت میں پڑتے ہی پہلا نام اسکا آئے زبان پر۔ کٹر سے کٹر ملحدانہ سوچ رکھنے والا انسان بھی جب کسی ایسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے جسکا اسکے پاس کوئی عقلی (لوجیکل) یا سائنسی حل نہیں ہوتا اور اسے لگتا ہے کہ اب بس اس مصیبت سے اسے کوئی معجزہ ہی نکال سکتا ہے تو وہ کسے پکارتا ہے؟ 

اللہ کو! اب چاہے وہ اللہ کہے، خدا کہے، معبود کہے، پروردگار کہے، لیکن اسکے ذہن میں جو ہستی ہوتی ہے وہ وہی ہوتی ہے جو اکلوتی سب سے بڑی حاجت رواں اور مشکل کشاں ہے۔ 


اسکا دوسرا مطلب ہے:

2: وہ ذات جسکو کھوجنے کی جستجو میں عقل دنگ رہ جائے۔ جس کو جتنا کھوجتے جائیں اس سے اتنی محبت بڑھتی جائے اور ایک وقت ایسا آئے کہ محبت کی شدت یوں ہو جائے کہ اپنی عقل بھی clueless ہو کر رہ جائے۔ کہ آخر یہ کیسی ذات ہے جسکو میں جتنا کھوج رہا / رہی ہوں اتنے ہی اسکے جواہر کھل کھل کر میرے سامنے آرہے ہیں۔ میری عقل حیرت سے گنگ ہوتی چلی جا رہی ہے اور میں اتنی ہی اس سے محبت کرنے پر مجبور ہوتی / ہوتا جا رہا / رہی ہوں۔ ایک ایسی ذات جو آپ کی عقل میں سما کر بھی نہ سکے اور آپ کو حیراں و سرگشتہ کر دے! 

اور الہ کے اس معنی نے مجھے سب سے زیادہ fascinate کیا ہے۔ ذرا غور کریں کہ ہمارا رب وہ ہے جو اس قدر کمالات سے متصف ہے کہ اسے کھوجنے والا بے ساختہ حیرت زدہ رہ جائے۔ اور سب سے مزے کی بات کہ اس حیرت کا بنیادی محرک "محبت" ہو۔ ہے نا کمال کی بات؟؟ 


اور تیسرا مطلب ہے

3- پناہ دینے والا۔ حفاظت میں لینے والا۔ امن عطا کرنے والا۔ 

مشکلات سے۔ سختیوں سے۔ آلام و مصائب سے۔ زندگی کے فتنوں سے۔ برزخ کی تنہائی سے۔ حشر کی سختی سے۔ جہنم کی شدت سے۔ کونسی ایسی چیز ہے جس سے وہ ذات آپ کو پناہ نہیں دے سکتی جسکے نام کا مطلب ہی پناہ دینے والا ہے۔ آپ مانگنے والے تو بنیں۔  


چوتھا مطلب ہے: 

4- معبود۔ جسکے سامنے ہر بلند پست ہو کر رہ جائے اور وہ اکیلا اونچی شان والا باقی رہ جائے۔ زمین و آسمان میں ہر چیز چاہے جاندار ہو، چاہے بظاہر بے جان ہو، سب اسی کے غلام ہیں۔ 

معبود کا مطلب سمجھتے ہیں؟ معبود عبد سے نکلا ہے۔ اور عبد غلام کو کہتے ہیں۔ اور معبود وہ جو غلام بنا لیتا ہو۔ 

غلام کون ہوتے ہیں؟ ہمارے زمانے میں غلاموں کا تصور ختم ہو چکا ہے پر اگر تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے اور اسلامی فقہ کا مطالعہ کیا جائے تو غلام ایک ایسا وجود ہے جسکی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ جسکی خواہش اور تمنا کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جسکے وجود پر اسکا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اسکا چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا، آرام کرنا، کام کرنا سبھی کچھ اسکے مالک کی مرضی اور موڈ کے تابع ہوتا ہے۔ اسے "کیوں، کیا، کیسے" پوچھنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس کے پاس صرف ایک آپشن ہوتا ہے۔ وہ ہے سر تسلیم خم کرنا۔ اور اسکے مالک کے پاس پوری اتھارٹی ہوتی ہے۔ چاہے وہ اسکی ہٹ دھرمی اور ضد پر بھی اسے معاف کرتا رہے اور چاہے تو اسکی اطاعت کے باجود اس پر غصہ کرتا رہے۔ وہ چوائس لیس ہے۔ اور اسکا مالک کل اختیارات کا مالک۔ 

اللہ تعالیٰ قرآن میں کیا فرماتے ہیں؟ 

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

یہ ہے وہ ایمان اور عبدیت جو مطلوب ہے

اور اللہ وہ ہے جو مالکوں کا مالک ہے۔ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ شہنشاہ ہے۔ اسکی عبدیت میں وہ وہ مخلوق بھی شامل ہے جسکی طاقت کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جبریل، میکائیل، اسرافیل، ملک الموت علیھم السلام جیسے فرشتے ہیں جو اسکے سامنے پر مارنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ ہے میرا اور آپ کا خدا بادشاہ! 

اب آپ بتائیں۔ آپ کسی مالی، جذباتی، جسمانی، عقلی، روحانی یا کسی بھی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اول تو آپ غلام ہیں وہ مالک۔ کیا آپ کو شکوہ کرنے کا حق ہے؟ جواب آپ خود دیں حقیقت پسندی سے۔ 

اگر آپ شکوہ کرتے ہیں تو دعاؤں پر سے آپ کا یقین کم ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ دعا ہی نہیں کرتے تو یہ تو سراسر محرومی ہے جس میں آپ نے خود ہی خود کو مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ تو منتظر ہے کہ کوئی آئے اور اس سے مانگے۔ اسکے نام کا مطلب ہی یہی ہے کہ جسکی طرف لوگ پناہ کیلئے لوٹتے ہیں۔ امید سے دیکھتے ہیں کہ وہ جس مشکل میں گرفتار ہیں وہ اسے دور کر دے گا۔ 

پھر اسکے نام کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ پناہ دیتا بھی ہے۔ یہ نہیں کہ لوگوں کو امید دلا کر چھوڑ دے۔ 

اور اگر آپ دعا کرتے ہیں تو کیا اللہ کا نام پکارتے ہوئے آپ کو کبھی احساس ہوا کہ آپ کس ہستی کو پکار رہے ہیں؟ اس ہستی کی پاور کا درست ادراک تو انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی۔ پر جتنا کرنا چاہیے کیا کبھی ہم نے اتنا بھی ادراک و شعور حاصل کرنے کی کوشش کی؟ پھر جب دعاؤں میں اس سے مانگا تو کیا اس کی پلاننگ پر بھروسہ رکھا؟ 

ہم میں سے اکثر دعائیں اپنی شرطوں پر منوانا چاہتے ہیں۔ اور ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ ایسی ہستی ہے جسکی طرف لوگ مشکلات میں امید سے دیکھتے ہیں تو وہ انہیں پناہ دیتا ہے پھر انکی توقعات کے خلاف جا کر اپنی حکمت سے انہیں حیران و پریشاں کرتا ہے پھر جب درست وقت آنے پر اس بظاہر خلاف مصلحت کام کی اصل حقیقت ہم پر کھلتی ہے تو ہم حیران تو ہوتے ہی ہیں پر بے ساختہ اس کیلئے دل میں محبت امڈتی ہے اس وقت، کہ اللہ میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے میری دعا نہیں سنی۔ جو مانگا تھا اسکا الٹ کر دیا آپ نے۔ میں تو آپ سے ناراض ہوا تھا۔ طے کر لیا تھا کہ آئیندہ نہیں مانگوں گا آپ سے۔ اور اب اتنا وقت گزرنے کے بعد جب مجھے اس چیز کی حقیقت پتہ چلی تو میں تو حیران رہ گیا۔ میں کیا "سوچ کر" مانگ رہا تھا اور آپ کیا "جانتے ہوئے" عطا کر رہے تھے۔ میرے شکووں اور اظہار ناراضی بھی آپ یوں نظر انداز کر گئے گویا کسی بچے کی نادانی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اب جب حقیقت میرے سامنے ہے تو میں سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ کی پلاننگز پر حیران ہوؤں یا آپ سے اس لمحے جو محبت محسوس ہو رہی ہے اسکا اظہار کروں؟! 

ہوا ہے نا ایسا آپ سبھی کے ساتھ؟! 

کیوں بھلا؟! کیونکہ اللہ تو ہے ہی وہ ذات جسکے سامنے پر بالا پست ہے۔ چاہے وہ کوئی مشکل ہو، کوئی جابر انسان ہو یا کوئی ظالم جن ہو۔

 جو خوف و پریشانی میں مخلوق کا مرکز نگاہ ہے۔ اور جو اپنی شان کے مطابق ہر مانگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ اور جو یہ سارے کام مخلوق کے تقاضوں نہیں بلکہ اپنی حکمت کے مطابق کر کے عقل کو حیران و پریشان کر دیتا ہے اور پھر انہیں خود سے محبت پر مجبور کر دیتا ہے۔ 

یہ ہے میرا اور آپ کا اللہ۔ اور یہ ہم ہیں غلام۔ چوائس لیس! 

لہذا اگلی بار جب آپ کے سامنے اسکا کوئی "حکم" بیان کیا جائے تو اسے نظر انداز کرنے یا کل پر ٹالنے سے پہلے سوچئے گا ضرور کہ آیا آپ ایسی ہستی سے بگاڑنا افورڈ کر سکتے ہیں؟ 

اور اگلی بار جب آپ دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں تو یاد رکھئے گا کہ وہ "اللہ" ہے۔ 

اور توفیق ہو تو دن میں پانچ منٹ کیلئے ضرور ایک تنہا گوشے میں بیٹھ کر، آنکھیں بند کر کے اس لفظ "اللہ" کو اسکی پوری چاشنی محسوس کرتے ہوئے دہرانے کی کوشش کریں روزانہ۔ میں آپ کو گارنٹی دیتی ہوں آپ کا خدا سے تعلق ہمیشہ کیلئے بدل جائے گا اسکے بعد خیر کے معنوں میں ان شاء اللہ۔  

اللہ ہم سب کو اسکی قدر کرنے، اس سے محبت کرنے اور اسکے سامنے صحیح معنوں میں بندہ بننے کی توفیق بعافیت نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔ 

-خولہ خالد 


نوٹ: اس سیریز کی کسی بھی پوسٹ میں کسی بھی قسم کی معمولی رد و بدل کرنا یا نام حذف کرنا سختی سے منع ہے!




No comments:

Post a Comment

Bottom Ad [Post Page]