بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#اسماء_الحسنی_سیریز
قسط 2
اسم 1: الرحمان، 2: الرحیم
قُلِ ادۡعُوا اللّٰهَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَ يًّا مَّا تَدۡعُوۡا فَلَهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى(سورۃ الاسراء: 110)
ترجمہ: آپ کہیے تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو، تم جس نام سے بھی پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں۔
اس آیت کے مختلف شان نزول بیان کیے جاتے ہیں۔ یہاں ایک ذکر کیا جا رہا ہے:
١۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے اور آپ سجدہ میں کہہ رہے تھے یا رحمن، یا رحیم، مشرکین نے کہا (سیدنا) محمد (ﷺ) لوگوں کو صرف ایک خدا کی دعوت دیتے ہیں اور اب دو معبودوں کو پکار رہے ہیں، اللہ اور رحمن۔۔۔ ہم تو صرف یمامہ کے رحمن کو جانتے ہیں۔ (ان کی اس سے مراد مسلیمہ کذاب تھی۔ علیہ لعنۃ اللہ!)
رحمان کے روٹ ورڈز ((ر ح م)) ہیں۔ اور یہی روٹ ورڈز رحیم کے بھی ہیں۔ اور رحم کے بے شمار معانی ہیں۔
اسکے بنیادوں معنوں میں شفقت، مغفرت، نرمی اور مہربانی کے معنی آتے ہیں جو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوں۔
رحم مادر (mother's womb) کو بھی رحم اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ جنین کو ہر طرف سے اپنے احاطے میں لے کر خارجی ہر شے، ہر شر سے محفوظ کر لیتا ہے۔ اس پر چھا جاتا ہے۔ اسے ڈھانپ لیتا ہے۔ چھپا لیتا ہے۔
اسی سے لفظ رحمت بھی نکلا ہے۔ اور رحمت کا مطلب "نعمت اور خیر" ہے۔ اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ خیر کس قدر جامع لفظ ہے جس میں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی، چاہے کسی بھی معنی اور انداز میں ہو، شامل ہو جاتی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز جسکا آپ تصور کر سکیں وہ آپ کو اللہ کی رحمت کے صدقے مل رہی ہے۔ اور چھوٹی سے چھوٹی برائی اور شر جس سے آپ بچ گئے وہ محض اللہ کی رحمت کے صدقے ہے۔ اور روز مرہ کی وہ لا تعداد نعمتیں جن پر کسی کا دھیان نہیں جاتا جن میں سب سے پہلے سانس لینا اور دل دھڑکنا شامل ہے جو مسلسل و مستمر ہے وہ اللہ کی رحمت کا ہی مظہر ہے۔ تو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! (سورۃ الرحمان)
اسی سے سورت المؤمنون آيت 118 میں یہ دعا ہے: رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمينَ (قراِن)
ترجمہ: اے میرے رب میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کیجیے اور آپ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بہترین (رحم کرنے والے) ہیں۔
اسی طرح حدیث میں مومنوں کو وصیت ہے: اِرْحَمْ مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكَ مَنْ فِي السَّمَاءِ (حديث)
ترجمہ: تم زمین والوں پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ رحمان اور رحیم دونوں کا مصدر ایک ہی ہے۔ دونوں کے روٹ ورڈز ایک سے ہیں۔ تو پھر دو الگ الگ ناموں کا کیا مقصد ہے؟! اور دونوں ناموں میں کیا فرق ہے؟!
میں نے "رفقا بالقواریر" میں مفتی تقی عثمانی حفظه اللہ کے حوالے سے یہ بات لکھی تھی کہ رحمن کا مطلب ہوتا ہے وہ جسکی رحمت Extensive ہو۔
جبکہ رحیم کا مطلب ہوتا ہے وہ جسکی رحمت Intensive ہو۔
آپ فرق سمجھ رہے ہیں؟! ۔۔۔۔ نہیں؟ ۔۔۔ پہلے یہ حدیث پڑھیے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: جَعَلَ اﷲُ الرَّحْمَةَ مِئةَ جُزْءٍ فَأَمْسَکَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِيْنَ جُزْءًا، وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا فَمِنْ ذَلِکَ الْجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ حَتَّی تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيْبَهُ. (أخرجه البخاری، حدیث نمبر: 5654)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے ہیں جن میں سے اُس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھ لئے اور ایک حصہ زمین پر نازل کیا۔ ساری مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہ اُسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کے اُوپر سے اپنا پاؤں اُٹھاتا ہے کہ کہیں اُسے تکلیف نہ پہنچے وہ بھی اسی ایک حصے کے باعث ہے۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں جنکا مفہوم ہے کہ وہ نناوے حصے اللہ پاک نے قیامت کے دن کیلئے اپنے پاس محفوظ فرما لئے ہیں وہ ان سے قیامت کے دن بندوں پر رحم فرمائے گا۔ سبحان اللہ!
اب آپ کو سمجھ آیا فرق؟ نہیں؟ چلیں میں اور وضاحت کرتی ہوں۔
ان دونوں لفظوں میں فرق کے لحاظ سے دو رائے ہیں:
1- رحمان کا مطلب ہے وہ ذات جسکی رحمت کائنات اور کائنات میں موجود ہر شے پر ہے۔ ہماری known universe کا کوئی ایک گوشہ یا ایٹم سے بھی چھوٹی چیز جو آپ اپنے تصور میں لا سکیں وہ بھی اللہ کے رحمان ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہر وہ شے جو موجود ہے، مرئی ہو یا غیر مرئی۔ (visible or invisible) اسکا "ہونا" برقرار ہی اسی لیے ہے کیونکہ اس پر اللہ کی رحمت ہے!
ایسا رب جو کائنات کے کسی پرلی کونے میں موجود کسی گمنام ستارے کے تاریک ترین حصے میں موجود ایٹم سے بھی چھوٹے ایک ذرے پر جو صدیوں سے وہاں بے جان پڑا ہو، رحم کرتا ہے، کیا وہ آپ پر رحم نہیں کرے گا؟؟ یا پھر وہ آپ ہیں جو بد گمانی اور نا امیدی سے پیچھا چھڑا کر اس کی رحمت کا یقین ہی نہیں کرنا چاہتے جو ہے ہی "الرحمان" ۔۔۔ لا محدود دائروں میں پھیلی رحمت والا!
▪️اور پھر وہ وہ رحیم بھی تو ہے! رحیم۔۔۔۔ یعنی intensively محبت کرنے والا۔ ہمارے دور کے بچے بچے کو انٹینس کا مطلب معلوم ہوگا یقینا۔ خصوصا تب جب یہ محبت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ہیں نا؟!
انٹینس ۔۔۔۔ گہری، شدید گہری محبت کرنے والا۔ ایسا نہیں کہ بس اوپری اوپری محبت کر کے چھوڑ دیا۔ نہیں! بلکہ محبت کی تو پوری گہرائی سے محبت کی۔ کرتا ہے۔ اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔
2- کچھ علماء کا کہنا ہے کہ رحمان یعنی بنا ادنی تفریق کے ہر فرد چاہے مومن ہو یا کافر، اور ہر شے چاہے جاندار ہو یا بے جان، سے محبت کرنے والا۔
▪️جبکہ رحیم وہ جو مخصوص چیزوں اور مخصوص لوگوں پر زیادہ رحمت کرتا ہے بنسبت اوروں کے۔ یعنی ایک عمومی رحمت سب پر ہے۔ اور کچھ خوشنصیبوں کیلئے خصوصی رحمت ہے۔
آپ سوچیں تو آپ کا رب کون ہے۔ پہلے وہ اللہ ہے! پھر وہ رحمان ہے۔ اور اسی پر بس نہیں، وہ رحیم بھی ہے۔
ایسا رب جو پناہ دینا چاہتا ہے، پناہ دیتا بھی ہے۔ جو رحم بنا مانگے ہر کسی پر کرتا ہے اور کچھ لوگوں پر انکے مانگنے یا "جانے انجانے میں کما لینے" کے سبب خصوصی رحم کرتا ہے۔ جسکی رحمت سے کوئی محروم نہیں۔ اور جو جب رحمت کرتا ہے تو شدید گہرائی سے ان پہلوؤں سے بھی رحمت فرماتا ہے جن پر مخلوق کا دھیان تک نہ جا سکے۔ کیونکہ ہم تو اللہ کی گہرائیوں تک کبھی نہیں پہنچ سکتے نا!
یاد ہیں وہ بعض دعائیں جو آپ لمبے عرصے سے مانگ رہے ہیں، رو رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔ اور وہ قبول نہیں ہو رہیں؟! وہ اسی لئے قبول نہیں ہو رہیں کہ اللہ رحیم ہے! وہ آپ پر intense رحمت فرماتا ہے۔ شدید گہری رحمت۔ جسکی گہرائی کو سمجھنے سے آپ کی عقل قاصر تھی، ہے اور رہے گی! آپ کو نہیں معلوم جسکے لیے آپ تڑپ رہے ہیں اسکا مل جانا آپ کا کتنا بڑا نقصان کر سکتا ہے۔
پر وہ رحیم ہے! وہ جانتا ہے میرے بندے کو یہ چیز نقصان پہنچائے گی اور پھر بندہ اس دعا پر پچھتائے گا۔ تو وہ آپ کو اس چیز سے دور کر دیتا ہے۔ اور بدلے میں آپ اور میں اس سے شکوے کرتے ہیں تو وہ اس پر بھی برا نہیں مناتا۔ غصہ نہیں ہوتا۔ منہ نہیں پھیرتا۔ کہ ایک تو اس نافرمان بندے کے ساتھ خیر کرو اوپر سے یہ الٹا خفا ہو۔ تو اسے تو کچھ ملنا ہی نہیں چاہئے۔۔۔ نہیں! وہ ایسا نہیں کرتا! کیونکہ وہ شدید رحمت کرنے والا ہے۔
یاد ہیں وہ نمازیں جو آپ نے سستی کاہلی، شدید یا معمولی بیماری اور یونیورسٹی یا پیپرز کے بہانے چھوڑ دیں۔ وہ روزے جو کبھی نہیں رکھے۔ وہ قرآن جو کبھی پابندی سے روزانہ نہیں کھولا۔ وہ اچھے اخلاق جو کبھی نہیں اپنائے۔ وہ نعمتیں جن پر کبھی شکر نہیں کیا۔ وہ بلائیں جن پر کبھی صبر نہیں کیا۔ وہ احترام جو کبھی بڑوں کا نہیں کیا۔ وہ شفقت جو کبھی چھوٹوں پر نہیں کی۔ وہ سنت کی اتباع جسے ہمیشہ غیر ضروری سمجھا۔ داڑھی رکھنا اور پردہ کرنا، جسے کبھی حکم سمجھ کر ماننے کی کوشش نہیں کی۔ دین جسے کبھی پورا کا پورا اپنانے کا تکلف نہیں کیا حالانکہ اللہ کے کہے کے مطابق وہ آسان تھا اور ہے۔۔۔۔ اس سب کے باجود اس نے آپ پر کبھی رحمت کرنا نہیں چھوڑی۔ اور افسوس کہ "اس سب کے باجود" میں نے اور آپ نے کبھی اس سے بد گمان ہونا اور شکوے کرنا نہیں چھوڑا۔
انصاف سے بتائیں کہ اس سب کے بعد کیا ہم ایسا خدا deserve کرتے ہیں؟!۔۔۔۔ یقینا نہیں! پھر بھی وہ ہم پر قہر نہیں آزماتا اور ہم پر رحمتیں کرتا جاتا ہے۔ اور پھر حد تو یہ کہ کبھی قہر ڈھا دے تو کچھ لمحوں بعد اس بظاہر شر کو بھی بڑی خیروں کا ذریعہ بنا دیتا ہے! سیلاب آتے ہیں تو سیلاب زدہ زمینیں ہمیشہ سے زیادہ زرخیز ہو جاتی ہیں۔ جس جگہ لاوا ابل کر گرتا ہے اس جگہ سے زمین کی شادابی ہر مقام سے بڑھ جاتی ہے۔ زلزلہ آتا ہے تو غفلت میں ڈوبے یکدم خواب غفلت سے بیدار ہو جاتے ہیں اور وہ جنتیں جنہیں وہ بھول چکے تھے، وہ اخوت اسلامی و انسانی جو فراموش کی جا چکی تھی، وہ جہنم جسکی لپیٹیں اچک اچک کر ہمیں نگلنے کو تیار تھیں اور ہم اس سے بے خبر تھے، وہ موت جسکے آنے کو ہم نے جان کر بھلا دیا تھا اور اس سب کے نتیجے میں ہم جتنی خیروں سے خود کو محروم کر چکے تھے اور جتنے شر خود اپنی طرف متوجہ کر چکے تھے وہ سب یکلخت بدل جاتا ہے۔ ماحول بدل جاتا ہے۔ سوچ بدل جاتی ہے۔ زندگیاں بدل جاتی ہیں۔ یہ سب اسلئے کہ وہ الرحمان الرحیم ہے۔
اور یہیں سے ایک نکتہ یہ بھی بتاتی چلوں کہ رحیم ایسی صفت ہے جو کسی نہ کسی بندے میں ممکنہ طور پر پائی جا سکتی ہے۔ یعنی کوئی بندہ شدید گہرائی سے رحم کرنے والا ہو سکتا ہے۔ آپ نے بھی اپنے ارد گرد ایسے رقیق القلب لوگ دیکھے ہوں گے جو شدید رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن رحمان ہونا ایک ایسی صفت ہے جو اللہ جل شانہ کے سوا کسی کیلئے اپنانا ممکن نہیں ہے! کوئی بندہ یا کوئی مخلوق ایسی نہیں ہو سکتی جو بیک وقت سب پر رحم کر رہی ہو۔ ہمارے رحم کے دائرے ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔ جبکہ خدا کا رحم extensive بھی ہے اور intensive بھی ہے۔ اور بیک وقت ہے، جو کسی مخلوق کیلئے ممکن نہیں۔ لہذا علماء فرماتے ہیں کہ بندوں میں سے کسی کو بغیر عبد کے رحیم پکارنا تو جائز ہو سکتا ہے۔ یعنی عبد الرحیم کے بجائے صرف رحیم کہہ دیں تو غلط نہیں ہوگا۔ پر بہتر ہے کہ نہ کہیں۔ لیکن اگر کوئی کسی کو عبد الرحمان کے بجائے صرف رحمان کہے تو یہ بے حد غلط اور ناجائز ہے!
سو لوگو! اپنے رب کی قدر کرو۔ اسے جانو۔ اسے پہچانو۔ اسکی مانو۔ کیونکہ وہ، اور اکیلا وہی تمہارا خیر خواہ ہے۔ اسکے دین میں پورے پورے داخل ہو جاؤ تاکہ اسکی جنتوں کے مزے لوٹ سکو۔ وہ تم سے اپنی صفات بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے خالق سے سیکھو۔
اور اسی لئے ہمارا آج کا سبق ہے انسانیت پر عموما اور امت مسلمہ پر خصوصا اور بالاخص اپنے پیاروں پر رحم کرنا۔ انکے ساتھ جو معاملہ کریں وہ اس استحضار کے ساتھ کریں کہ آیا میرا یہ عمل رحمت کے مطابق ہے یا الٹا زحمت؟! آپ لوگوں پر رحم کرنے والے بنیں تو حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو گارنٹی دی ہے کہ آسمان والا آپ پر رحم کرے گا۔ خصوصی رحم کرے گا کیونکہ عمومی رحم تو وہ سب پر کرتا ہے۔ کیا آپ کو خدا کے خصوصی رحم کی ضرورت نہیں ہے؟
-خولہ خالد
انتباہ: کاپی کرنا سختی سے منع ہے!!!
No comments:
Post a Comment