کہیں فرش میں کہیں طور تھی
وہ جو کھلی کھلی سے تھی روشنی
وہ جو رات دن میں تھی چاشنی
وہ جو راستوں کی تھیں وسعتیں
وہ جو زندگی کے تھے قہقہے
جب حساب لینے پہ تل گئے
مرے گمان مٹی میں رل گئے
نہ گلوں میں باقی مہک رہی
نہ خرد میں باقی جنوں رہا
نہ مجھ میں باقی میں رہی
نہ مجھ میں باقی سکوں رہا
تمہیں کیا خبر جس سے تم ملے
میرا عکس تھا یا سراب تھا
مجھے میں ہی اب تک نہ پا سکی
مجھے تم نے جانا ہے کب بھلا
کہیں فصل گل کبھی خزاں کی رت
کہیں اشک بار میرے قہقہے
مجھے تم نے جانا ہے کب بھلا
کہیں فرش میں، کہیں طور تھی!
~خولہ خالد
ایک بے سبب اداس دل کی بکھری بکھری سی صدا! : )
No comments:
Post a Comment