مشورہ اہل مشورہ سے کیجیے!
بہت سالوں پہلے ماہنامہ نونہال میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ اب ٹھیک سے یاد تو نہیں لیکن مختصرا کچھ یوں تھی (میرے الفاظ میں) کہ کہیں پر ایک گھوڑی اپنے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ روزانہ اپنے مالک کی بوریاں لاد کر ندی پار لے جایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ بیمار پڑ گئی تو پریشانی سے کہنے لگی کہ آج بوری کون لے جائے گا؟ بچے نے اپنی ماں کو پریشان دیکھا تو بولا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ آج آپ کی جگہ میں چلا جاؤں گا۔ میں اتنا کمزور نہیں ہوں کہ یہ معمولی سا کام بھی نہ کرسکوں۔ گھوڑی خوش ہو گئی اور اس نے اپنے بچے کو اپنی جگہ روانہ کر دیا۔
گھوڑی کا بچہ بوری لادے خراماں خراماں ندی کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اسے ایک گدھا ملا۔ اس نے یونہی گدھے سے پوچھ لیا کہ بھائی میں ندی پار کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ندی کتنی گہری ہے؟ کیا میں اسے پار کرسکتا ہوں؟!
گدھا بولا: ہاں بالکل! ندی زیادہ گہری نہیں ہے بس میرے گھٹنوں تک پانی آتا ہے۔ تم بے فکر چلے جاؤ۔
گھوڑی کا بچہ یہ سن کر مطمئن ہو گیا اور آگے چل پڑا۔ ذرا آگے اسے ایک بکری ملی۔ اس نے یونہی مزید تسلی کو بکری سے بھی وہی سوال پوچھ ڈالا۔
بکری بولی: ندی کا پانی میری گردن کے اوپری حصے تک آتا ہے۔ تم دیہان سے جانا۔
یہ سن کر گھوڑی کا بچہ ذرا پریشان ہو گیا لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ جب وہ ندی کے سامنے پہنچا اور ندی پار کرنی چاہی تبھی اسے وہاں ایک گلہری نظر آئی۔ وہ پریشان تو تھا ہی۔ لہذا اس نے اپنے اطمئنان کیلئے گلہری سے بھی وہی سوال پوچھ ڈالا۔ جوابا گلہری گھبرا کر بولی: ارے ارے یہ ندی پار کرنے کی کوشش مت کرنا۔ ابھی دو دن پہلے ہی میرا بھائی یہ ندی پار کرتے ہوئے ڈوب کر مر گیا ہے۔ جان پیاری ہے تو ایسی کوشش نہ کرنا!
اب تو گھوڑی کا بچہ بے حد پریشان ہوا اور ندی عبور کرنے کا ارادہ ترک کر کے دوڑا دوڑا اپنی ماں کے پاس گیا۔ ماں نے پریشانی کا سبب پوچھا تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ گھوڑی سارا قصہ سن کر مسکرائی اور اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
بیٹا! گدھا قد میں تم سے اونچا تھا لہذا اس نے اپنے حساب سے تمہیں پانی کی گہرائی بتائی اور تم نے اسکی بات سچ سمجھ لی۔ بکری قد میں تم سے ذرا کم تھی تو اس نے بھی اپنے حساب سے پانی کی گہرائی بتائی اور تم نے اس پر یقین کر لیا۔ اور گلہری تو ننھی سی ہوتی ہے اسکے قد کے حساب سے تو پانی اتنا ہی گہرا تھا جتنا اس نے بتایا۔ لیکن کیا تم نے سوچا کہ نا تم گدھے جتنے ہو نا ہی بکری جتنے اور نا ہی گلہری کے برابر۔ تمہیں ان تینوں کی باتوں پر غور کر کے اپنے مطابق نتیجہ نکالنا چاہئے تھا ناکہ آنکھیں بند کر جس نے جو کہا اسی پر یقین کر لیا۔ گھوڑی کا بچہ یہ سن کر سر ہلانے لگا پھر وہ واپس ندی کی طرف چلا اور خود پر یقین کرتے ہوئے اس نے تینوں اقوال کو پرکھ کر ایک نتیجہ اپنے حساب سے نکالا اور بنا ڈرے پانی میں قدم رکھ دئے۔ پانی صرف اسکی گردن کے ابتدائی حصے تک پہنچ رہا تھا۔ اور یوں وہ آرام سے ندی پار کر گیا۔
![]() |
Have #courage to make your own decisions |
آپ نے دیکھا ہوگا آپ کے ارد گرد ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ لوگ مشورہ کرنے کیلئے اپنے بہترین دوستوں یا جن پر انہیں بھروسہ ہو انکے پاس جاتے ہیں اور وہ یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر کوئی مشورے کا اہل نہیں ہوتا۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے اپنی کوئی پریشانی شئیر کرتے ہیں اور آپ کا مقصد محض دل ہلکا کرنا ہوتا ہے یا کوئی حکمت بھرا مشورہ درکار ہوتا ہے یا دعا کا کہنا ہوتا ہے۔ لیکن جس سے آپ شئیر کر رہے ہیں وہ عمر عقل یا تجربے میں آپ سے کم ہوتا ہے یا وہ عقل کے بجائے جذبات سے سوچنے کا عادی ہو تو بھلے وہ آپ سے مخلص ہو لیکن وہ بات کرے گا اپنی عقل کے مطابق۔ اور جذباتیت میں ساری صورتحال کو آپ کیلئے مزید بھیانک بنا دیتا ہے کہ اففف یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ کتنا غلط ہوا تمہارے ساتھ! تم نے برداشت کیسے کیا؟! تمہارے ساتھ ایسا کرنے والے کتنے نا سمجھ اور نادان ہیں۔ تم اس سب کے بعد بھی نارمل کیسے ہو؟! میں تمہاری جگہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا کر بیٹھتا وغیرہ وغیرہ۔
اور نتیجتا آپ خود کو مظلوم سمجھنے لگتے ہیں اور آپ کو اپنے رشتوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔۔۔۔۔ لیکن کیا یہ آپکے مسئلے کا حل تھا؟؟ کیا خود کو مظلوم اور اپنے ارد گرد والوں کو ظالم سمجھنے اور اسے ثابت کرنے سے آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی؟؟ نہیں! بلکہ مزید مشکل ہو جائے گی۔ کیونکہ خود ترسی کا شکار انسان کبھی درست فیصلے نہیں کر سکتا!
یا آپ کسی بیحد تجربہ کار کے پاس چلے جائیں جو آپ کے مسائل سے خود بھی کسی زمانے میں گزرا ہو لیکن وہ انہیں "بھول" چکا ہو۔ تجربے کی بھٹی میں جل کر وہ خود تو کندن بن گیا ہو کہ اپنے لیے درست فیصلے لے سکتا ہو لیکن چونکہ وہ آپ سے بھی زیادہ سخت حالات فیس کر چکا ہے تو آپ کے مسئلے اسے بچکانہ لگتے ہوں۔ تو وہ آپ سے آپ کی پریشانی کے جواب میں کہے کہ دنیا میں اس سے بھی بڑے مسئلے ہیں۔ تم انہی میں گھبرا گئے تو آگے کیا کرو گے۔ اور یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ جائے۔ تو پیچھے آپ احساس کمتری کا شکار ہونے لگیں گے کہ میں تو ٹوٹل فیلیئر ہوں۔ مجھ سے اپنے ذرا ذرا سے معاملات بھی ٹھیک سے ہینڈل نہیں ہوسکتے، میں زندگی میں کیا کروں گا؟! اور احساس کمتری کا شکار انسان بھی کبھی درست فیصلہ نہیں کر سکتا!
ایسے میں آپ کو چاہئے کہ آپ گھوڑی کی بچے کی کہانی کو یاد رکھیں۔ مشورہ اہل مشورہ سے کریں اور سنی سنائی دوسروں کی باتوں پر ہوبہو یقین کرنے کے بجائے اپنے حالات کے مطابق انکا تجزیہ ضرور کریں کہ آیا فلاں نے جو کہا وہ میرے حالات و مزاج سے مماثلت رکھتا ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہاں، تو کس حد تک مماثلت رکھتا ہے اور اس مشورے یا رائے کا کتنے فیصد حصہ میرے لئے قابل قبول ہے اور باقی مجھے اگنور کرنا ہے؟!
یہاں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو آپ سے "آپ کے" حالات اور سمجھ کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ورنہ اکثریت آپ سے "اپنے" مزاج اور حالات کے مطابق ہی ہمکلام ہوتی ہے۔ لہذا سنیے سب کی لیکن اپنی عقل سمجھ لازمی ساتھ رکھیں اور کسی بھی رائے پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے سے پہلے اسکا اپنے مطابق ضرور تجزیہ کریں۔ ورنہ آپ ساری زندگی ندی کے کنارے گزار دیں گے اس کشمکش میں کہ آیا میں اسے پار کر سکتا ہوں یا نہیں!!! انسان معاشرتی حیوان ہے اسلئے دوسروں کے تجربوں سے مستفید ضرور ہوں۔ لیکن ان پر کلی طور پر منحصر ہرگز نہ ہوں۔
خولہ خالد
Rely on Yourself
#خود پر یقین # اصلاحی باتیں #متفرق خیالات # خود انحصاری #self sufficient #self grooming #اللہ #معاشرتی حیوان
Mashwara kisse Kia jae?
Mashwaray ki ehmiat
No comments:
Post a Comment