#امانتیں_کیا_ہیں؟!
السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ!
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا)
[Surat An-Nisa' 58]
ترجمہ: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم "امانتوں" کو انکے حقداروں تک پہنچاؤ۔
پس منظر کچھ یوں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی کعبہ اور حجاج کی خدمت ایک بڑی عظیم سعادت سمجھی جاتی تھی۔ اور جس کسی کو اس میں سے کوئی کام ملتا وہ خوش نصیب گردانا جاتا تھا۔ جیسے سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی الله عنہ کے ذمے تھی۔ اسی طرح بعض اور ذمہ داریاں آپ صلی الله علیه و سلم کے دوسرے چچا ابو طالب کے حوالے تھیں۔ اسی طرح کعبہ کی کنجی برداری کی خدمت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنا اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے کعبہ میں داخل ہونے کی فرمائش کی تو انہوں نے حضور ﷺ کو نہایت سختی سے روکا اور ترش روئی اختیار کی۔ آپ علیه الصلاہ والسلام نے انکی تمام سخت گفتگو نہایت بردباری سے سنی۔ پھر ارشاد فرمایا کہ عثمان شاید تم ایک دن کعبہ کی کنجیاں میرے ہاتھ میں دیکھو جبکہ مجھے اختیار ہو کہ میں جسے چاہوں اسے سونپ دوں۔
حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسا ہوا تو قریش ہلاک اور ذلیل ہو جائیں گے۔
آپ صلی الله علیه و سلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس وقت قریش آباد اور عزت والے ہوں گے۔
عثمان رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اسکے بعد مجھے یقین سا ہو گیا کہ ایسا ہو کر رہے گا، اور میں نے مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن اپنی قوم کی لعنت ملامت کی وجہ سے ارادے کو اس وقت تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔
پھر فتح مکہ کے دن حضور اکرم ﷺ نے ان سے بیت اللہ کی کنجی منگوائی تو انہوں نے لا کر پیش کر دی۔ ایسے میں حضرت علی و عباس رضی اللہ عنھما نے درخواست کی کہ جیسے کعبہ کی دوسری خدمتیں ہمارے سپرد ہیں، یہ خدمت بھی ہمیں دے دی جائے۔ لیکن آپ صلی الله علیه و سلم نے یہ کنجی واپس عثمان بن طلحہ رضی الله عنہ ہی کے حوالے کردی۔ اور اس وقت یہ آیات تلاوت فرمائیں۔ حضرت عمر الفاروق رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اس سے پہلے ان آیتوں کو حضور ﷺ سے کبھی نہیں سنا تھا۔ جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی تھی۔
![]() |
Allah Ka Ghar ❤️ |
اب ہم آیت کی طرف واپس آئیں تو غور کریں کہ امانت ایسا لفظ ہے جو ایمان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ (لا ایمان لمن لا امانۃ له) جسکے اندر امانتداری نہ ہو اسکا ایمان بھی معتبر نہیں۔
دوسری جگہ خیانت کو واضح الفاظ میں منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آیت میں لفظ "امانات" ہے۔ یعنی مفرد کے لفظ کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ امانت کیا کیا چیزیں ہو سکتی ہیں؟!
یہاں آیت میں امانت سے مراد مالی امانت نہیں ہے۔ جیسے کعبہ کی کنجی کی حفاظت کوئی مال نہیں صرف ایک خدمت، یا عہدہ ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ عہدے بھی امانت ہیں! اور حاکم کیلئے جائز نہیں کہ وہ عہدہ کسی نا اہل کو دے۔ اور اگر وہ ایسا کرے کہ محض دوستی اور تعلق کی بنا پر نا اہلوں کو عہدے بانٹتا پھرے تو حدیث کے مطابق اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اسکا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ بالآخر جہنم میں داخل ہو جائے گا۔
اسی طرح آپ صلی الله علیه و سلم کا ارشاد ہے کہ "المجالس بالامانۃ": مجالس و محافل امانت ہیں۔ ان میں شریک کسی بھی فرد کو اجازت نہیں کہ وہ بغیر صاحب مجلس کی اجازت کے مجلس کی کوئی بات باہر نکالے!
یہاں ٹھہر کر سب ذرا اپنا جائزہ لیں، خصوصا خواتین جنکا پسندیدہ مشغلہ گوسپنگ ہے کہ کیا ہم مجلسوں کی حرمت کا احترام کرتے ہیں؟؟؟ کیا ہم ایک مجلس میں کی گئی بات دوسری مجلس میں ہنس ہنس کر یا سرگوشیوں میں صرف گوسپنگ کیلئے نشر نہیں کرتے؟؟ اگر ہاں تو ہمارے ایمان کا کیا پھر؟؟ کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ نے صراحتاً فرما دیا کہ جو امانت کا خیال نہیں رکھتا اسکا کوئی ایمان معتبر نہیں۔
پھر امانت کی ایک اور قسم ہے کہ حدیث میں ارشاد ہے کہ "المستشار مؤتمن"۔ یعنی جس سے مشورہ کیا جائے وہ اسکے پاس امانت ہے۔ کہ اول تو لوگوں کو بتاتا نہ پھرے کہ فلاں میرے پاس فلاں چیز کا مشورہ لینے آیا تھا۔ الا یہ کہ مشورہ لینے والی کی طرف سے صریح اجازت ہو بتانے کی۔ دوم وہ وہی مشورہ دے جو مشورہ طلب کرنے والے کے حق میں مفید ہے، ورنہ یہ بدترین خیانت ہوگی۔ اور جان بوجھ کر غلط مشورہ دینے والا اللہ کی نظر میں بدترین منافق گردانا جائے گا۔
پھر ایک اور امانت کسی کا راز ہے! ہر ہر راز امانت ہے۔ اگر آپ کو اتفاقا یا کسی بھی سبب سے کسی کا راز پتہ چل گیا ہے تو بھلے پیٹ میں چوہے دوڑیں یا مروڑ اٹھیں، لیکن اس راز کی حفاظت پر ہی آپ کے ایمان کا دارومدار ہے۔ کیا صرف پیٹ ہلکا کرنے کی خاطر آپ کو اپنے ایمان کا سوداگر بننا قبول ہے؟؟
یہ فیسبک یا کہیں پر سے بھی کسی کی معمولی سی تحریر بھی اٹھا کر اپنے نام سے کہیں پوسٹ کر دینا اور اوپر نیچے کہیں بھی منقول یا کاپیڈ لکھا کر وضاحت نہ کرنا یا رائٹر کا نام حذف کرنا یا نہ لکھنا بھی ایک بد ترین خیانت اور دوسرے کے حق پر ڈاکہ ہے باقاعدہ۔ اس معاملے میں اکثر عوام کی بے احتیاطی عروج پر ہوتی ہے کہ پورے پورے ناول ہی اٹھا کر بنا اجازت ادھر ادھر پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں یا اپنے پاس واٹس ایپ وغیرہ پر سیو شئیر کرنے لگتے ہیں۔ بد ترین خیانت ہے یہ بھی!
پھر امانت کی ایک بہت ہی شائع قسم جس میں اکثریت اور خصوصا طلبہ دل کھول کر خیانت کرتے ہیں وہ ہیں کمرہ امتحان میں چیٹنگ۔ آپ کو دیا گیا سوالیہ پرچہ خود حل کرنا آپ کے پاس امانت ہے۔ اور کسی دوست کی دوستی کے ناتے مدد کرنا یا مدد لینا آپ کے حق میں خیانت ہے، جو آپ سے ایمان چھین کر آپ کو منافقین کی صف میں لا کھڑا کر سکتی ہے۔
ذرا دو لمحے کو سوچئے کہ دنیا میں چند اچھے گریڈز حاصل کرنا اتنا ضروری ہے کہ اسکے لئے اپنے ایمان کو بے فکر ہو کر داؤ پر لگا دیا جائے؟؟ اگر ہاں تو یقینا آپ ایمان سے واقف ہیں نا اپنی زندگی میں اسکی اہمیت اور ضرورت سے!
آیت مذکورہ میں ان سب امانتوں کا حق ادا کرنے کی تاکید بلکہ واضح حکم ہے۔ اور اللہ کے حکموں کو دھڑلے سے ضائع کرنے والے بھلا کس منہ سے اسکی رحمت کی امید کرتے ہیں؟! اللہ سورۃ عنکبوت میں صاف کہتا ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ وہ زبان سے کہیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور (اسی بات پر انکی بخشش ہو جائے گی اور) انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟؟؟
سو معلوم ہوا زبان سے کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں جب تک ایمان آپ کے اندر رچ بس نہ چکا ہو کہ جہاں ایمان کی بات آئے وہاں آپ کڑوے سے کڑوا گھونٹ بھرنا گوارا کر لیں لیکن ایمان داؤ پر نہ لگائیں۔
تو آئیے آج جائزہ لیں کہ ہم کتنے منافق ہیں اور کس حد تک مومن۔ اور پھر تجدید ایمان کیجئے۔ تجدید عہد کیجئے۔ اور آج سے ہر قسم کی امانتوں کی حفاظت کا عزم مصمم کیجئے۔ کریں گے نا ان شاء الله ؟!
(مستفاد از تفسیر مولانا تقی عثمانی مد ظلہ، آمین)
خلاصہ و تحریر: خولہ خالد
نوٹ: بنا کسی حذف و تبدیلی کے تحریر شئیر کر سکتے ہیں۔
#امانت کی اقسام #امانت داری #کعبہ شریف #کعبے کو دیکھنا #نفاق کے معانی #منافق کی نشانی #ایمانی پہلو
No comments:
Post a Comment