2021 میں لکھی گئی 2012 کی ایک یاد سے متعلق ایک مسکراتی مگر فکر انگیز تحریر۔۔۔۔۔۔ وقت بھی کیسے گزر جاتا ہے ویسے! کل کی حقیقت آج کی یاد! وقت بڑی عجیب شے ہے۔
#حقیقی_داستان_بعنوان: تصویر کی سچائی!
تصویر کے ایک رخ کی بابت تو سبھی نے سن رکھا ہوگا۔ لیکن آج میں آپ کو تصویر کے اس ایک رخ کی "سچائی" دکھانا چاہتی ہوں۔ تو ساتھیوں! اپنی سوچوں کی سیٹ بیلٹس کس کے باندھ لیں (تاکہ وہ ادھر ادھر نہ بھٹکیں) اور تیار ہو جائیں۔ اور یہ ہمارا سفر ۔۔۔۔۔۔ شروع ہوا:
مثل مشہور ہے کہ جب گیڈر کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ اسی طرح جب ہم "قلاش سفر کے شائقین" کے نازک دل کا امتحان مقصود ہو تو ہم (اپنی چادر کی وسعت دیکھتے ہوئے) "پنٹرسٹ" کا رخ کرتے ہیں۔
اب ظاہر ہے بھئی سفر تو کر نہیں سکتے لہذا تصویروں کے سنگ تصور میں تخیل کے رنگ بھرنے چل پڑتے ہیں۔ (پھر دل چاہے لاکھ دہائیاں دے، لیکن ہم سدا کے آپٹیمسٹک لوگ(ما شاءاللہ) اسے تخیل کی بہاروں سے ہی بہلا لیتے ہیں۔ آخر کو دل بچہ ہے بھئی۔ وہ بھی معصوم سا!! (اور معصوم سے بچے کتنے ہی ضدی کیوں نہ ہو جائیں سادہ چیزوں سے بہل بھی جاتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ لیجئے ایک مشہور تصویر کا دوسرا رخ بھی آگیا یہاں!!)
خیر تو بات ہو رہی تھی تصاویر کے سنگ تخیلاتی سفر کی۔ فارغ وقت میں یہ مابدولت کا من پسند مشغلہ ہے کہ خوبصورت تصاویر کو کھوجتے ہم انکی دنیا میں کھو سے جاتے ہیں۔ شاید یہ لطیف ذوق والے بہت سے افراد کا مشغلہ ہو! ۔۔۔۔۔۔ اب ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھئے۔
لاہور کا قصہ ہے۔ ٹھٹھرتی ہوئی سردی ہے۔ فجر کا وقت ہے۔ اور دسمبر کی فضا ہے۔ اور ایک (بظاہر) لگژری سا سرخ و سنہرے رنگوں میں ڈھلا ہوٹل ہے۔ جسکی اوپری منزل پر سرخ مخملی کارپٹ سے ڈھکی ہوئی راہداری اس سمے سنسان پڑی ہے۔ راہداری کے دونوں طرف سنہرے سے دروازے ہیں جو اس لمحے چوکھٹ سے یوں جڑے ہیں جیسے کبھی علیحدہ ہو ہی نہیں سکتے۔ ان دروازوں کے پیچھے سکون آور گرمائش ہے اور مسافر دبیز کمبلوں میں لپٹے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہوٹل کے عین سامنے ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا باغ ہے جو اس وقت گہری دھند سے ڈھکا ہوا ہے۔ پارک کے بیچوں بیچ ایک دائرے کی صورت گھاس کا قطعہ ہے جسکے چاروں طرف سے راستے جا رہے ہیں۔ اور ان راستوں میں سے ایک پر ایک کتے کا پلا سردی کی شدت سے خود میں ہی سمٹا پڑا ہے۔ باغ کے سامنے ایک فٹ پاتھ ہے جس پر ایک نمازی فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکل کر ہوٹل کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس نے سرمئی کوٹ پر سرخ ٹوپا پہنا ہوا ہے اور اسکے منہ سے بھاپ کی صورت دھواں نکل کر فضا میں ٹھہر سا گیا ہے۔ ہر طرف لاہور کی مشہور دھند چھائی ہے کہ حد نگاہ مختصر ہو گئی ہے۔ ڈھلتی رات اور روشن دن کے سنگم پر گرتی بے تحاشا اوس سے ڈھکا یہ ایک انتہائی دل خوش کن اور فرحت انگیز منظر ہے جسے دیکھ کر رگ و پے میں سردی کی ایک لہر کے ساتھ ساتھ سکون بھی دوڑ جائے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں حقیقی واقعہ کہاں ہے جس کی طرف باقاعدہ پیش ٹیگ کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔
تو ہاں جناب! میں اسی طرف آرہی تھی۔
اوپر کھینچا گیا نقشہ ہماری آج کی تصویر تھی۔ یا یوں کہہ لیں کہ تصویر کا ایک رخ تھا۔
ہم جیسے بہت سے لوگ اسی قسم کی تصاویر دیکھ دیکھ کر کبھی خوش ہوتے ہیں(کم ہی) تو کبھی مرعوب(زیادہ تر) اور ہم ایک تصویر (یا چند تصویروں) کا اپنی ساری زندگی سے موازنہ کرتے ہوئے نا شکرے ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ ہم نا صرف یہ کہ تصویر کا محض ایک رخ دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ ہم تصویر کی سچائی سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔
اب آئیے، اس "تصویر کی سچائی" کی طرف بڑھتے ہیں۔
اوپر کھینچے گئے سارے منظر کو سوچ کر آپ کے تخیل میں ایک خوبصورت، پر سکون سی تصویر بنی ہوگی۔ یا اگر اسے مجسم تصویر بنا کے آپ کے سامنے رکھ دیا جائے تو آپ یقینا اس منظر میں کچھ لمحوں کیلئے ضرور کھو جائیں گے یہ جانے بغیر کے سچائی کچھ اور ہے!
کچھ عرصے پہلے کسی ضروری کام سے ہمارا لاہور جانا ہوا تھا۔ اوپر کھینچے گئے نقشے میں ہم کراچی والوں کیلئے سب سے "کول" چیز منہ سے بھاپ نکلتے دیکھنے کا تجربہ تھا۔ (کراچی کی سردی کا معلوم ہے نا آپ کو؟! مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم سے وہ بھی نہیں برداشت ہوتی اور ہم ڈبل جرابوں کے ساتھ سوئٹز کے نیچے ہائی نیک بھی پہنتے ہیں۔ اچھا اچھا، اب مذاق تو نہ اڑائیں!!)
خیر، تو دو دن اسی کشمکش میں گزر گئے کہ فجر کے وقت کمرے سے باہر صرف منہ سے بھاپ نکالنے کا تجربہ کرنے کیلئے کمرے سے نکلیں تو کیسے نکلیں۔ وضوء کر کے فجر پڑھتے پڑھتے ہی بینڈ بج جاتی تھی۔ بالآخر ہاتھ سے پھسلتے وقت کے پیش نظر تیسرے دن کہیں جا کر ہمت کی اور ہم علی الصبح مسجد جاتے ابو جی کے پیچھے پیچھے ہوٹل کے کمرے سے باہر کر کھلی گیلری میں چلے آئے۔ وہاں قدم رکھتے ہی یخ بستہ ہواؤں نے مزاج پوچھا مگر مجال ہے جو ہمارے پائے استقلال میں نام کو بھی لرزش آئی ہو۔ آہ۔۔۔۔۔ ذرا سوچیں۔۔۔۔ ہم اوپر بیان کردہ خوبصورت منظر کو موبائل اسکرین کے پیچھے حسرت سے دیکھنے کے بجائے بنفس نفیس اسکا حصہ تھے۔ دو لمحے کو آنکھیں بند کر ہم نے اپنی خوش قسمتی کا یقین کرنا چاہا۔ چونکہ مابدولت بہت نازک طبع واقع ہوئے ہیں سو ابھی تک سردی کی شدت سے بچنے کیلئے ہماری ناک پر گردن سے چہرے تک آتا موٹے سے مفلر کا پلو پڑا ہوا تھا اور اسکے اوپر پورا نقاب بھی موجود تھا، جو ہم نے سوچا تھا کہ عین تجربہ کرتے سمے ہر طرف چھائے مکمل سناٹے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو لمحے کو سرکا لیں گے۔
بالآخر وہ مبارک گھڑی آن پہنچی اور ہم نے آنکھوں میں آئی چمک اور دل سے پھوٹتی خوشی کو بمشکل سنبھالتے ہوئے عمیق نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیا اور دور دور تک کسی آدم زاد کا نشان تک نہ پا کر مزید احتیاط کے طور پر کنارے پر ہوتے ہوئے اپنی ناک مبارک کو "سردی سونگھنے" کیلئے آزاد کر دیا۔ من میں خوشی سے لڈو پھوٹ رہے تھے کہ ہائے ہم بالآخر "آفیشلی سردی یافتہ" ہونے لگے ہیں۔ واپس جا کر احباب کے سامنے ڈینگیں مارنے کا تصور اس قدر پرکشش تھا کہ کیا بتاؤں۔ انہی خیالات کے کے نشے میں چور ایک بیحد گہری سانس اندر کھینچی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین جانیں اگلے ہی لمحے ہم اپنا الٹتا ہوا معدہ سنبھال کر بری طرح ابکائیاں لیتے ہوئے اندر کمرے کی طرف دوڑ لگا گئے تھے۔
وہاں کہیں قریب میں انتہائی متعفن کوڑے کا ڈھیر پڑا تھا جسے اپنی ایکسائٹمنٹ میں ہم دیکھ ہی نہ پائے تھے اور پوری فضا اس سے اٹھتے انتہائی کراہت آمیز بھبکوں سے یوں مہک رہی تھی کہ کھلی فضا میں سانس لینا بھی محال تھا۔
کیا تصویر دیکھتے ہوئے آپ میں سے کسی نے بھی یہ سوچا تھا؟؟؟ نہیں نا؟! کیونکہ یہ تصویر کی وہ سچائی تھی جسے کیمرہ مقید کرنے سے قاصر تھا۔
آپ شاید ہنس رہے ہوں گے مگر یہ ایک بہت بڑی اور سبق آموز حقیقت ہے۔ دنیا کا کوئی کیمرہ کتنی ہی حسین عکس بندی پر قادر کیوں نہ ہو، وہ آپ کو ہرگز بھی کبھی اس تصویر کی پوری سچائی نہیں دکھا سکتا۔ حتی کے کیمروں کی چکا چوند سے متاثر ہونے والے تو یہ تک نہیں جانتے کہ کیمرہ جتنا خوبصورت منظر دکھا رہا ہے وہ حقیقت میں خوبصورت کا بالکل الٹ ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ میں نے اپنے موبائل سے کھینچی ایک تصویر اپنی ایک عزیزہ کو دکھائی۔ رات کا سیاہ آسمان، اور سامنے رات ہی کی سیاہی میں ڈوبے سمندر کا ڈولتا پانی۔ تصویر میں عین سامنے سمندر کے کنارے پر کھڑی کئی ساری کشتیاں اور انکے برابر موجود چھوٹا سا مصنوعی روشنیوں سے جگمگاتا پورٹ جسکی نیلی پیلی روشنیاں سمندر کے پانی پر منعکس ہوتے ہوئے ایک بیحد قابل دید منظر تشکیل دے رہی تھیں۔ اور ان روشنیوں کے پلرز کے بیچ سے جھانکتا چھوٹا سا زردی مائل دھبوں والا چاند۔ وہ بلا شبہ ایک خوبصورت اور مکمل تصویر تھی!
وہ عزیزہ کہنے لگیں کہ "ہائے کس قدر پیاری تصویر ہے۔ بندہ کراچی رہتے ہوئے انہی جگہوں پر گھوم آئے کم از کم۔"
اس سے پہلے کہ انکے حسرت کے نالے مزید بلند ہوتے میں نے انہیں ٹوکا۔
"یہ کیماڑی ہے! اور جتنا یہ تصویر میں خوبصورت دکھ رہا ہے حقیقت میں خوبصورت کا "خ" بھی یہاں نہیں موجود!"
سیاہی میں ڈوبا پورٹ جسکے صرف ایک چھوٹے سے حصے ہی کو روشنیاں میسر آئی تھیں۔
گندگی اور کچرے سے اٹی عمارت جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ سامنے ہی کچرے کی تہہ کے نیچے سے جھانکتا دلدل نما سیاہ سمندر جو اپنی کم مائیگی پر افسوس کرتے کرتے گویا سمندر نہیں کسی ٹھہرے ہوئے پانی سے بھرے گٹر کی عکاسی کر رہا تھا۔ اور اسکے کنارے کی ساتھ چلتی لمبی سی ٹوٹی پھوٹی راہداری جسکے سروں پر سے ریلینگ بھی جگہ جگہ سے غائب تھی کہ ادھر کسی کا پاؤں پھسلا اور ادھر وہ سیدھا گندے سمندر میں۔۔۔۔ جس میں اس جگہ لا تعداد پرانی کشتیاں یوں کھڑی تھیں گویا کشتیوں کا قبرستان ہو کوئی۔ اور روشنی صرف وہیں تھی جو اس چھوٹے سے کٹاؤ کے سامنے والے حصے پر لگے چند پلرز سے وہاں تک پہنچنے کی جدو جہد کر رہی تھی۔ وہی پلرز جنکی روشنیاں سمندر میں منعکس ہو کر تصویر کو ایک خواب ناک سا تاثر دے رہی تھیں۔ اور اوپر سے مچھلیوں کی انتہائی ناقابل برداشت بو جو عین سی پورٹ کے سامنے لگے مچھلی بازار میں کسی بد روح کی طرح رقص کرتی پھر رہی تھی۔
ساری تفصیل سن کر وہ عزیزہ توبہ کرنے لگیں کہ اب تو تصور سے بھی گھن آرہی ہے۔
تب میں نے یہ سوچا کہ ہم انسان فیصلے کرنے میں کس قدر جلد باز واقع ہوئے ہیں نا؟! ہم کیمرے کی دنیا میں جا کر حسین تصاویر دیکھتے مد ہوش ہونے لگتے ہیں۔ دل سے ایک پر درد "کاش" بلند ہوتا ہے جسکے میں ایک ناشکری بھری سرگوشی شامل ہوتی ہے کہ "اپنی ایسی قسمت کہاں!"۔
اور یوں محض ایک تصویر، یا چند تصویریں اپنی "ناقص سچائی" کے سنگ ہمیں عطا کی گئی بے شمار نعمتوں پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ اور ہم قسمت سے شاکی ہو جاتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ "کیا یہ ادھوری سچائی لئے مکمل تصویریں زیادہ قابل رشک ہیں؟ یا نعمتوں سے معمور ہماری مکمل زندگی زیادہ قابل تشکر ہے؟؟!"
پھر (اے جن و انس!) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟؟! (الرحمن)
~خولہ خالد
Jan 1 2021
No comments:
Post a Comment