بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
#اسماء_الحسنی_سیریز
#از_خولہ_خالد
قسط 4
الاسم: القدوس
آپ پریشان ہیں نا؟ آپ کا کچھ کھو گیا ہے؟ آپ سے کچھ ٹوٹ گیا ہے؟ آپ کے ہر طرف اندھیرا ہے جس میں روشنی کی کوئی کرن آپ تک نہیں پہنچ رہی؟ آپ کا دم گھٹتا ہے؟ آپ کو مر جانے کی تمنا ہے؟ آپ کو دنیا کی رنگینیوں سے وحشت ہوتی ہے؟ آپ کو ہر کوئی اپنا دشمن لگتا ہے؟ آپ جبرا مسکراتے ہیں اور اندر سے آپ پتھر کے ہو چکے ہیں؟ آپ رونا چاہتے ہیں پر آپ کے آنسو دل پر گرتے ہیں پر آنکھ سے نہیں ٹپکتے؟ آپ کو اپنا آپ عیوب کا مرکز لگتا ہے یا پھر آپ کو اپنی زندگی عیبوں سے پر لگتی ہے؟
اگر ایسا ہی ہے تو آپ کو یہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن پہلے۔۔۔۔۔۔۔ تمہید ضروری ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک ہم نے ہم نے اللہ پاک کے 5 اسمائے حسنی کو ڈسکس کیا ہے۔ القدوس چھٹا ہے۔ ایک چیز جو میں ذکر کرنا بھول گئی تھی وہ تھی ترتیب۔ ناموں کی ترتیب۔ سب سے پہلا نام اللہ ہے جو کہ باری تعالیٰ کا اسم ذات ہے۔ جسکی وضاحت پہلے گزر چکی۔ اس نام کے سب سے پہلے ذکر ہونے میں کوئی غموض نہیں ہے۔ رائٹ؟
جب ہم تعارف کراتے ہیں تو سب سے پہلے نام ہی بیان کیا جاتا ہے۔ پھر دوسری صفات کا ذکر آتا ہے۔ اور ہر تعارف میں ترتیب بہت معنی رکھتی ہے۔ کوئی آپ سے پوچھے آپ کا رب کون ہے؟ آپ اسے بتائیں کہ وہ اللہ ہے!
وہ مزید وضاحت چاہے تو اسے بتائیں وہ رحمان ہے۔ اسکی رحمت ہر شے و ہر شخص کو پہنچ رہی ہے۔ سائل کہے گا کیا مجھے بھی۔۔۔۔ حالانکہ میں اسے نہیں جانتا؟ تو ہمارا جواب ہوگا، ہاں! کیونکہ وہ رب رحمان ہے! اور اسکی بھی مزید تفصیل گزر چکی۔
پھر وہ پوچھے کہ اچھا تو وہ اللہ جو رحمان ہے آخر اسکی رحمت کی انتہا کیا ہے؟
تو آپ بے جھجھک کہیں کہ اسکی رحمت کی انتہا یہ ہے کہ وہ رحیم ہے! ایسے Intensively رحمت نچھاور کرنے والا جسکی حد نہیں۔
پھر سوال ہو کہ اچھا وہ بے حد و بے انتہا رحمت برسانے والا رب کن کن چیزوں پر full control رکھتا ہے؟ ظاہر ہے رحمت صرف انہی کو پہنچ سکتی ہے نا جو اسکے دائرہ کار کے اندر ہوں۔
تو جواب دیں کہ وہ الملک ہے! ہر معروف و غیر معروف، موجود و غیر موجود شے کا مالک۔۔۔۔۔
اگلا سوال ہوگا کہ اچھا، وہ اللہ جو رحمان و رحیم ہے۔ جو لا محدود کنٹرول کا مالک ہے۔ ہر موجود و غیر موجود شے پر اسکا سکہ چلتا ہے تو کیا اکیلے اتنی ساری چیزوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اس سے چوک نہیں ہو سکتی؟ غلطی تو سب سے ہو جاتی ہے نا؟ مشرکین کے ان یونانی خداؤں سے بھی غلطیاں ہو جاتی تھیں جو انکے نزدیک سب سے عظیم تھے۔ ہبل و لات و عزیٰ جیسے بت اپنی حفاظت پر قادر نہیں تھے۔
تو ہم فورا کہہ اٹھیں کہ نہیں وہ اللہ جو عظیم و اکلوتا مالک ہے، شاہوں کا شہنشاہ ہے، وہ قدوس ہے!
قدوس۔۔۔ یعنی ہر نقص سے پاک، بے عیب۔۔۔۔ flawless ۔۔۔ مقدس، بزرگی والا، Holy، کاملیت والا۔ Perfect!
امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تمام مخلوقات کے نزدیک کاملیت کے جو بھی معنی ہوں قدوس ان سب معانی کو شامل ہے اور انکے سوا کاملیت کے کئی اور پہلو سمیٹے ہوئے ہے جن تک کسی مخلوق کی عقل نہیں پہنچ سکتی! سبحان اللہ!
یہ کلمہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ یہ کتنا بڑا تحفہ ہے نا اللہ کا؟! ۔۔۔ جب ہم اپنی زبان سے یہ کلمہ ادا کرتے ہیں تب ہم اللہ کیلئے اسی قدوسیت کا اعلی درجوں میں ثابت ہونے کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس وہ عقل ہے جو اس پرفیکشن کو سمجھ سکے نہ وہ الفاظ ہیں جو اسکی تعریف کا حق ادا کر سکیں۔ ہماری اس بے مائیگی کو دیکھ کر رحمان و رحیم رب نے خود ہی ہمیں وہ الفاظ عنایت کر دیے جن سے ہم ہر لمحے اس سے رابطہ جوڑ سکیں اور اسکی حمد و ثنا کسی درجے میں بیان کر کے خود کا شمار خوش نصیبوں میں کر سکیں۔ کتنا پیارا ہے نا ہمارا اللہ! سب کچھ خود عطا کرتا ہے اور کریڈٹ ہمیں مفت کا دے دیتا ہے۔۔۔۔ اوہ میرے اللہ!
اچھا اب سوال یہ ہے کہ اللہ پاک قدوس ہے یہ جان کر ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
انسانی فطرت ہے کہ ہم پرفیکشن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہم جس جہاں کیلئے بنے ہیں اور جہاں سے آئے ہیں وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہے۔ اس جہاں میں کوئی خامی کوئی خرابی نہیں ہے۔ اگر جنت ہے تو وہ کاملیت کے ساتھ بہترین ہے۔ perfectly best. اللہ پاک ہمیں اہل جنت میں شامل فرمائے عافیت سے، آمین۔
اور اگر جہنم ہے تو وہ کاملیت کے ساتھ بدترین ہے۔ perfectly worst! اللہ پاک ہمیں اس سے بعافیت نجات عطا فرمائے، آمین۔
آپ سمجھ رہے ہیں یہ بات؟ کتنی عظیم بات ہے یہ۔
اور ہم اس جہاں سے آئے ہیں جہاں کاملیت کی دو انتہائیں بہترین طریقے پر موجود ہیں۔ اور ہمیں لوٹ کر اسی جہاں میں جانا ہے۔
اور عارضی طور پر جس دنگل میں ہمیں اتارا کیا ہے وہ انتہائی کاملیت کے ساتھ غیر کامل ہے۔
The perfectly imperfect world!
یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی صفت قدوسیت کار فرما ہے۔ اگر دنیا کو امپرفیکٹ بنانا ہی تھا تو یوں ہی سا بنا کر نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ چونکہ وہ القدوس ہے۔ اسکا ہر کام، ہر حکم، ہر فیصلہ کسی بھی قسم کے معمولی سے بھی نقص سے پاک اور انتہائی پرفیکٹ ہوتا ہے اسلئے اس نے یہ امپرفیکٹ دنیا بھی انتہائی پرفیکشن کے ساتھ ترتیب دی ہے!
Ah, The beauty of Allah's creations.....
یہ ہمارے لئے ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ وہ پر فیکشن جو پڑھائی میں، رشتوں میں، بزنس میں، خوشی میں، غم میں، یا کسی بھی چیز میں ہم ڈھونڈتے ہیں وہ ہمیں اللہ کے پاس ملے گی۔ القدوس کے پاس!
اگر ہم کاملیت پسند ہیں تو ہمیں پروانوں کی طرح اس شمع کے گرد جمع ہونا چاہئے جو کاملیت کا منبع ہے! خدا قدوس ہے تاکہ کاملیت پسند بندے اسکی طرف کھنچے چلے آئیں۔ اپنے اصل کی طرف لوٹ آئیں۔
اور جب خدا کامل ہے تو اسکا دین جو اس نے بڑی محبت سے اپنے محبوب ﷺ اور ان کی امت کیلئے چنا وہ دین کس قدر کامل ہوگا؟! آج اسلام اور احکامِ اسلام آپ کو قید لگتے ہیں جبکہ وہ تو سراسر آزادی ہیں۔ وہ کامل ہیں اور اپنے اپنانے والوں کو کامل کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔
ہم آج بطور مسلمان نام نہاد مسلمان ہیں۔ دین سے اور خدا سے دور ہیں۔ پریشان حال ہیں۔ جس طرف نگاہ دوڑائیں ہر کوئی پریشان ہے۔ بقول شخصے "یہاں ہر شخص خوش رہنے کیلئے پریشان ہے!"
یہ اسلئے کیونکہ ہم کاملیت کو غلط جگہ تلاش کر رہے ہیں اور یہ فراموش کر چکے ہیں کہ کامل تو بس وہ ہے۔ وہ جو ہمارا سب کچھ ہے اور جسکے بغیر ہم کچھ بھی نہیں!
پتہ ہے وہ تکلیف جو آپ کا مقدر ہوئی اور آپ سوچتے رہ گئے کہ میں ہی کیوں؟
وہ دھوکہ جو آپ کو اپنوں سے ملا اور آپ سن رہ گئے کہ ایسے کیسے؟
وہ خنجر جو آپ کی پشت میں گھونپا گیا اور آپ کو اپنا جرم معلوم نہ ہو سکا۔
وہ اذیت جسکے لا تعداد پنچے ہیں جو آپ کے سینے سے نکلتی ہے اور پورے بدن کو نادیدہ گرفت میں جکڑ لیتی ہے اور آپ وجہ تلاشتے رہ جاتے ہیں۔
وہ غم جو آپ کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔
وہ مسکراہٹ جو آپ کو اسٹیکر کی طرح اپنے ہونٹوں پر چپکانی پڑ رہی ہے۔
یہ سب کیوں ہے؟ یہ غلط ہے نا؟ آپ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتے نا؟
ہاں! اللہ تعالی بھی جانتا ہے کہ آپ وہ لوگ، وہ چیزیں، وہ رویے ڈیزرو نہیں کرتے یا وہ نعمتیں آپ کو اپاہج بنا رہی ہیں، آپ خود انحصاری کے بجائے دوسروں پر بے جا انحصار کرنے لگے ہیں۔ اور آپ یہ ڈیزرو بالکل نہیں کرتے۔ اللہ آپ کو اپنے سوا دوسروں پر انحصار کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اسلئے وہ ان چیزوں / لوگوں کو آپ سے دور کر دیتا ہے۔ اور دور کرنے کا ایک مقصد آپ کو اس سے بہتر چیز/انسان/رویہ عطا کرنا ہوتا ہے اور دوسرا مقصد آپ کو یہ یاد دلانا ہوتا ہے کہ ان امپرفیکٹ اور فنا ہو جانے والی چیزوں میں دل نہیں اٹکانا۔
آپ کا خدا پرفیکٹ ہے۔ آپ کیلئے چنا گیا مقام پرفیکٹ ہے۔ اگر ان فانی چیزوں میں دل اٹکا لیا تو وہ پرفیکٹ مقام کھو دیں گے آپ۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ آپ اپنا مقام کھوئیں۔ اسی لئے وہ اپنی رحمت اور آپ سے اپنی محبت کے ناطے وہ فیصلے کرتا ہے جنکا باطن سراسر آپ کے حق میں رحمت اور ظاہر میں وہ آپ کی نظر میں عذاب ہیں۔
سو بات تو ساری نقطہء نظر کی ہے۔ آپ جس مقام پر کھڑے ہو کر آج چیزوں کو دیکھ رہے ہیں اگر بس اپنا زاویہ تبدیل کر لیں تو آپ کو اپنی اس انتہائی تکلیف دہ صورتحال کے پیچھے چھپے پرفیکٹ اسباب نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
کیونکہ آپ کی زندگی کے فیصلے جسکے ہاتھ میں ہیں وہ خود پرفیکٹ ہے!
اتنا پرفیکٹ کہ جب وہ چیزوں کو قصدا امپرفیکٹ بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس امپرفیکشن کو بھی پرفیکٹ طریقے سے بناتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ غلط کیسے کر سکتا ہے؟ آپ بس اسے سمجھ نہیں رہے۔ آپ اسے جانتے نہیں ہیں تبھی اس سے بد گمان ہو رہے ہیں۔
وہ اللہ ہے۔ میرا آپ کا مالک۔ جو رحمان و رحیم ہے۔ جو ہر عیب سے پاک ہے۔ جسکا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہر فیصلہ پرفیکشن کا مظہر ہوتا ہے۔ آپ اسے پہچانیں۔ اسے اپنائیں۔ اسکے فیصلوں میں چھپی پرفیکشن اگر آپ کو ابھی نظر نہیں آ رہی تب بھی اس پر یقین رکھیں کہ وہ القدوس ہے۔ جو کچھ آپ کے ساتھ ہو رہا ہے اسکے اسباب ہیں۔ ایسے اسباب جو آپ کیلئے عنقریب پرفیکٹ ثابت ہونے والے ہیں۔ بس آپ نے بد گمانی نہیں کرنی۔ اس سے دور جانے کے بجائے اسے سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرنی ہے۔ آپ پرفیکشن کے مالک کو اسکے تمام حکموں سمیت اسکی شرطوں پر اپنا لیں۔ وہ آپ کی زندگی کو عیبوں سے خالی کر دے گا!
وہ بزرگ و برتر ہے۔ عیبوں سے پاک ہے۔ کاملیت والا ہے۔ وہ اللہ ہے۔ وہ قدوس ہے۔ اس پر یقین رکھیں۔ کیونکہ اللہ کہتا ہے میں بندوں سے انکے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں!
تو اپنی زندگی کے امپرفیکٹ معاملات پر شکوہ کرنے کے بجائے ذرا پھر سے نظر دوڑائیں۔ آپ کو اسکے پیچھے اللہ کے پرفیکٹ پلانز نظر آئیں گے اور آپ شکر ادا کرنے کا طریقے سوچتے رہ جائیں گے!
-خولہ خالد
No comments:
Post a Comment