مجھے معلوم ہے تم پریشان ہو۔ غمزدہ ہو۔
تمہارا دل بیمار ہے۔ تھکن زدہ ہے۔
آزمائش کی شام طویل ہو چکی ہے،
کہ اب تم طلوع سحر سے مایوس ہو چکے ہو۔
تم نے بہت دعائیں مانگی ہیں
مگر حالات کی سختی نے
تمہیں انکی قبولیت سے بے نیاز بنا دیا ہے۔
تمہیں خود سے نفرت ہوتی ہے کیونکہ
تم خود کو خدا سے اب جوڑ نہیں پاتے۔
تمہیں اپنے آپ پر غصہ آتا ہے کیونکہ
تم دعائیں پہلے جیسی تڑپ و لگن سے نہیں مانگ پاتے۔
رد ہو جانے کا احساس اتنا شدید ہوتا ہے
کہ دعا مانگنے کے جذبے پر غالب آ جاتا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ تم بے بسی محسوس کرتے ہو!
لیکن میں بتاؤں، اس میں کچھ برا نہیں!
برا تب ہے جب یہ منفی جذبات دائمی ہو جائیں
اور تم مثبت چیزوں سے بے بہرہ ہو جاؤ۔
یہ تھکن، یہ مایوسی، یہ نہ ختم ہونے والے سفر کی بیزاری، یہ آبلہ پائی۔۔۔
یہ سب تو تمہارے سفر میں عبور کئے گئے سنگ میلوں کی نشانیاں ہیں۔
یہ تو تمغے ہیں جو بتاتے ہیں کہ
تم اتنا سفر اپنی تمام تر کم ہمتی کے باوجود بھی طے کر چکے ہو۔
یہ تو تمہاری جیت کی نشانیاں ہیں۔ پھر تم ہار کیوں مان رہے ہو؟
مانا کہ زندگی نے اب تک تمہیں مشکلات سے نبرد آزما کیا ہے۔
لیکن کیا انہی مشکلات نے تمہیں وہ انسان نہیں بنایا جو آج تم ہو؟!
پہلے سے بڑھ کر باشعور، با ہمت، حوصلہ مند اور دعاؤں پہ یقین کرنے والے؟
ہاں تمہیں اب بھی دعا پر یقین ہے، چاہے تم اسے لاکھ جھٹلا لو!
کیا آج بھی تم ان لوگوں سے دعاؤں کی درخواست نہیں کرتے،
جن کی دعا کی قبولیت پر تمہیں یقین ہے؟
پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم دعاؤں پر یقین کھو چکے ہو؟
نہیں! دراصل تم اپنی ذات پر یقین کھو چکے ہو۔
اور وہ تمہیں بحال کرنا ہے۔
یا تمہیں شکوہ ہے کہ تم سے کچھ چھن رہا ہے جس سے تمہیں محبت ہے،
تو آخر وہ تمہیں دیا ہی کیوں گیا تھا اگر آخر میں تہی داماں ہی رہ جانا تھا؟
بھلا بتاؤ اسکے بچھڑنے کے دن تم وہی ہو جو اسکے ملنے کے دن تھے؟
نہیں اے عزیز! تم سر تا پا بدل چکے ہو۔
تمہیں جینے کے وہ کئی گر معلوم ہو چکے ہیں
جو پہلے تمہارے علم میں نہیں تھے۔
اس محبوب شے/شخص کا تمہاری زندگی میں آنا
بے مقصد نہیں تھا۔
تمہارا اس سے دل لگ جانا بے حقیقت نہیں تھا۔
وہ تمہاری آنے والی زندگی کی تیاری کا ایک مرحلہ تھا۔
تم نے اسے منزل جان لیا، ٹھیک ہے۔ کوئی بات نہیں!
ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔
لیکن اب جب تمہیں علم ہو ہی گیا ہے کہ وہ منزل نہیں،
سفر کا ایک پڑاؤ تھا
تو آگے نہ بڑھنا، ضد باندھ لینا، سر تسلیم خم نہ کرنا،
یہ تمہارا گناہ بن سکتا ہے!
خود کو گنہگار نہ کرو اور آگے چل پڑو۔
خوشیاں۔۔۔۔
حقیقی و پائیدار خوشیاں خراج مانگتی ہیں!
ویسے ہی جیسے ہر قیمتی چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے!
تم اتنا دور نکل آئے ہو اس سفر میں،
اتنی مشقتیں کاٹ چکے ہو
تو اب ہمت نہ ہارو۔
بھلا اس شخص جیسا بھی کوئی نا سمجھ ہوگا
جو خون پسینے سے قیمت تو چکا دے
مگر مطلوبہ شے حاصل کئے بنا ہی پلٹ جائے؟
یقینا نہیں!
سو اے عزیز! اٹھو کہ سفر اب اختتام کو ہے۔
آخری سیڑھی پہ آنے والے اگر خود ہار مان لیں
تو کوئی جیت انکے نام نہیں کر سکتا۔
اسلئے تمہیں اٹھنا ہی ہوگا۔
لہو رستے زخموں کے ساتھ بھی تمہیں خود ہی ہمت کرنی ہی ہوگی۔
اپنے بہتے آنسو خود ہی پونچھنے ہی ہوں گے۔
اپنے آپ کو خود ہی کندھا دینا ہوگا۔
کیونکہ تم سے بڑھ کر تمہارا ہمدرد کوئی نہیں۔
تم اپنی طاقت کا سر چشمہ خود ہو۔
اور تمہیں وہ طاقت ودیعت کرنے والی ذات خدا کی ہے۔
اسلئے اگر مایوس بھی ہو تو اے عزیز!
جان لگا دینا مگر ایک دن رات سے زیادہ کبھی مایوس نہ رہنا۔
پھر دوبارہ عزم و یقین کی تجدید کر کے واپس خدا کے پاس لوٹ آنا۔
کہ اے رب دو جہاں! میرا تیرا سوا اور ہے ہی کون؟
تجھ سے منہ موڑ کر میں آسمان و زمین میں بھلا کس کے پاس پناہ تلاشوں گا؟
کون ہے جو مجھ سے میری تمام تر خامیوں کے باوجود بھی
تیری طرح محبت کرے گا؟
تیرے سوا اور کس میں اتنا ظرف ہے کہ
اسکی رحمت سے بار بار مایوس ہونے کے باجود بھی
جب کبھی میں اسکی طرف لوٹوں تو
تو کبھی نہیں جتاتا اور ایک پکار پر لبیک کہہ کر مجھے سمیٹ لیتا ہے؟!
ایسے مہربان رب کو چھوڑ کر میں بھلا کہاں جا سکتا ہوں؟
سو اے رب العالمین! مجھے کبھی خود سے دور نہ جانے دینا۔
میرے ہر راستے کو اپنی سمت موڑ دینا۔
اپنی ذات کو میرا محور اور میری منزل بنا دینا۔
تاکہ جب یہ دنیا مجھے تھکائے تو تری یاد میں مجھے سکون مل جائے۔
جب میں یہاں بے آسرا محسوس کروں
تو تری مہمانی یاد کر کے مجھے اپنا آپ سب سے امیر محسوس ہو۔
جب جب مجھے یہ دنیا قید خانہ لگے،
میں جنتوں کی یاد میں خود کو خوش قسمت تصور کروں۔
کیونکہ نہیں لگتی یہ دنیا قید خانہ، مگر مومنوں کو۔
اور نہیں بھڑکتی آتش شوق جنت کیلئے دلوں میں، مگر مخلصین کے۔
تو اے رب ارض و سماں! مجھے مؤمنین و مخلصین میں شامل کرنا۔
اور پھر تم خود میں پاؤ گے ہمت و تازگی اور نیا ولولہ۔
کیونکہ خدا سے مانگ کر کوئی کبھی محروم نہیں رہتا۔
ایک صورت یا دوسری،
لیکن وہ دعائیں قبول کرتا ہے۔
ہمیشہ ویسے نہیں جیسا تم چاہتے ہو۔
بلکہ ویسے جو تمہارے حق میں بہترین ہوتا ہے۔
اسلئے اپنی دعاؤں کی قبولیت کو
اپنی عقل سے پرکھنے کے بجائے اے عزیز!
خدا کے فیصلوں پر اعتماد کرنا سیکھو۔
اپنی زندگی کو بصارت نہیں بصیرت سے سمجھنے کی سعی کرو۔
یقین جانو تم خود کو لاکھوں سے بہتر پاؤ گے۔
اور پھر جو شکر گزاری کے رستے پہ چلتا ہے
اسکے لئے نعمتوں میں اضافہ ہی اضافہ ہے۔
اور جو ناشکری کرتا ہے وہ محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔
اور تمہارا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔
لیکن بندے خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
~خولہ خالد
No comments:
Post a Comment